فتنوں سے حفاظت کا واحد راستہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جو انسان کسی طریقہ کی اتباع کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کا طریقہ اختیار کرے جو فوت ہوگئے ہیں کیونکہ زندہ آدمی دین میں فتنہ سے محفوظ نہیں ہوتا اور وہ لوگ جو فوت ہوگئے ہیں اور جن کی اتباع کرنی چاہیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو اس اُمت کے بہترین لوگ ہیں اور دلوں کے اعتبار سے انتہائی درجہ کے نیک لوگ ہیں اور علم کے اعتبار سے انتہائی کامل درجہ کے لوگ ہیں اور بہت تھوڑا تکلف کرنے والے تھے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے منتخب کیا تھا۔ لہٰذا تم لوگ ان کی بزرگی کو پہچانو اور ان کے نقش قدم کی اتباع کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اَخلاق اور عادات کو اپناؤ کیونکہ یہی لوگ ہدایت اور صراطِ مستقیم پر تھے۔اس حدیث کو رزین نے بیان کیا ہے۔(مشکوٰۃ شریف بحوالہ بیہقی)
تشریح: یعنی جو شخص کسی طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ ان لوگوں کی راہ اختیار کرلے جو مرتے دم تک علم و عمل کی راہ پر گامزن رہے کہ جن کی زندگی اور ان کے کمالات کسی پر مخفی نہیں۔ غرض یہ کہ ساری زندگی جادۂ حق پر استقامت کے ساتھ گزاری۔ مرے ہوئے لوگوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور زندوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد کے دور کے لوگ ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اشارہ انہی لوگوں کی طرف ہے جو تابعین کہلائے جو اس وقت زندہ موجود تھے اور یہ کہہ کر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آنے والے لوگوں کو بتا دیا کہ پیروی کے قابل وہ لوگ ہیں جو نیکی اور بھلائی کی پیروی کرتے ہوئے اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد جو ادوار بھی آتے جائیں گے ان ادوار میں زندہ لوگوں سے مختلف طرح کی کوتاہیاں ہوتی رہیں گی اور کوئی انسان ایسا کامل نہیں ہوگا کہ اس سے کسی وقت بھی کوئی غلط کام سرزد نہ ہو اس لیے صرف اور صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں جو اُمت کے بہترین انسان تھے اس لیے زندوں کے لیے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی اتباع کرتے رہیں اور کسی دوسرے پر نظر نہ رکھیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت ہی وہ مقدس جماعت تھی جس نے براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا اور اللہ تعالی کے دین کو پھیلانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معین و مددگار رہے اور اس راستہ میں جن مصائب سے بھی ان کو دوچار ہونا پڑا اور مخالفین نے ان پر جس قدر ظلم و ستم کیا وہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اسلام کی اشاعت و بقا کے لیے قربانیاں دیتے رہے اور ان ہی کا دور اسلامی تاریخ کا سب سے تابناک باب ہے۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم میں یہ شہادت دی گئی ہے کہ ’’اُؤلٰئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی‘‘ (الحجرات:۳) یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ہر لحاظ سے جانچ لیا ہے۔ اگر علم و فضل کی کسوٹی پر ان سختیوں کو پر کھا جائے تو بلامبالغہ نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہر صحابی علم، معرفت، فہم و فراست، تدبر و تفکر اور عقل و دانش کا مینارۂ نور تھا جن سے دُنیا نے ظلم و جہل کے اس ماحول میں تعلیم و ترقی، تہذیب و شرافت اور انسانیت کی روشنی حاصل کی۔ مختصر یہ کہ عبادات ہوں یا معاملات، اَخلاق و عادات ہوں یا معیشت و معاشرت زندگی کے ہر پہلو میں ان کے یہاں خلوص اور بے تکلفی و سادگی تھی۔ انہوں نے اپنے نظام حیات کو ایسے سانچے میں ڈھال رکھا تھا جو خالص اسلامی، دینی اور اَخلاقی تھا اور یہ سب نگاہِ نبوت کی کرشمہ سازی تھی اور نبی اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا اثر تھا۔
اس لیے تمام مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتباع کا حکم دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے کی اتباع کا حکم نہیں دیا گیا، اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فرمانبرداری کا دوسرا نام ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے۔
قولہ: اولٰئک اصحاب محمد ۔۔۔۔۔ واقلھا تکلفا:۔
حدیث شریف میں لفظ’’اولئک‘‘ سے اشارہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف ہے جو دُنیا سے رُخصت ہوچکے تھے، لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے ’’قد مات‘‘ میں ضمیر مفرد لائی گئی اور معنی کا لحاظ کرتے ہوئے ’’اولٰئک‘‘ اسم اشارہ جمع لایا گیا۔ (کذا ذکرہ الطیبی)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم میں گہرائی تھی، دقت فہم و بصیرت ان پر ختم تھی۔ علوم مختلفہ کا وافر ترین حصہ رکھنے والے تھے، ان کے سینے تفسیر، حدیث، فقہ، قرأت، فرائض، تصوف اپنے اندر سموئے ہوئے اور قلوب کو انشراح حاصل تھا۔ ان میں سے ہر ہر شخص ’’اُمت‘‘ کا مصداق تھا، اعلیٰ قسم کے ایسے ایسے شمائل سے آراستہ اور فضائل سے پیراستہ تھے کہ غالب احوال کے اعتبار سے عام لوگوں میں خال خال ہی کوئی متصف ملتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد پھر یوں ہونے لگا کہ لوگ علوم کے اعتبار سے متفرق ہونے لگے، بعض لوگ مفَسِّر ہوگئے، بعض صرف محدث بن گئے چونکہ ان کے بعد کے لوگوں میں وہ کامل استعداد و قابلیت عظمیٰ نہ تھی۔
یعنی کام کاج میں تکلف نہیں کرتے تھے، ننگے پاؤں چلا کرتے تھے، نماز زمین پر ہی ادا کرلیا کرتے تھے، ہر طرح کے برتنوں میں کھالیا کرتے تھے، ایک دوسرے کا جوٹھا پی لیتے تھے، یہی حال ان کا علم میں تھا، لایعنی اُمور میں بات چیت نہیں کرتے تھے، نامعلوم مسائل کے بارے میں صاف صاف کہہ دیا کرتے تھے ’’لا ادری‘‘ کوئی مستفتی آ جاتا تو اپنے سے زیادہ بڑے عالم کی طرف راہنمائی کردیتے، خود فتویٰ دینے سے بچتے تھے، یہی حال تلاوتِ قرآن کا تھا کہ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کیا کرتے تھے۔ قرآن اہل عرب کے لہجہ میں پڑھا کرتے تھے، گا گا کر، لہک لہک کر قرآن پڑھنے سے اجتناب کیا کرتے تھے۔ احوالِ باطنیہ بھی احوال ظاہرہ کی مانند تھے، نہ چیخ و پکار کرتے تھے، نہ گانے باجے کی محفلیں سجاتے تھے، نہ ’’اذکار‘‘ کیلئے حلقے لگایا کرتے تھے، نہ نمازوں کیلئے حلقے لگایا کرتے تھے، نہ درُود و سلام اپنی مساجد میں اونچی آواز سے پڑھتے اور نہ اپنے گھروں میں۔ ظاہری اعتبار سے مخلوق سے کٹے ہوئے مگر باطنی اعتبار سے خدائے وحدہ لاشریک کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
جو لباس میسر آ جاتا زیب تن فرمالیتے، اس کی پرواہ نہ ہوتی کہ صوف ہے کہ قطن و کتان، کپڑوں کی تراش خراش میں انہیں فیشن سے کوئی سروکار نہ تھا، حلال اور مستلذات میں سے جو چیز دستیاب ہوتی تناول فرمالیتے، دودھ، پھل اور گوشت وغیرہ سے احتراز نہیں کیا کرتے تھے، اور یہ سب کا سب اس مربی کامل و مکمل کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ جو مربی اعظم فرمایا کرتے تھے: ’’ادبنی ربی فأحسن تأدیبی‘‘ اگلے جملہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بھرے جہان میں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے نبی کی صحبت و ہم نشینی کیلئے چنا۔ چنانچہ پھر انہی لوگوں نے اللہ کے نبی کی سنتیں، اقوال و افعال چار دانگِ عالم میں پھیلائے، اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر نہ صرف جہاد کیا بلکہ جہاد کا حق ادا کیا، فتوحات کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوگیا اور اسلام کا ٹھیک ٹھیک پرچار کیا، باوجودیکہ دُنیاوی حاجات بھی ساتھ ساتھ تھیں مگر ہمیشہ فکر معاد میں لگے رہے۔
صحابہ کو غیر صحابہ سے افضل و بالاشمار کرو، اگرچہ بعض صحابہ بعض صحابہ سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، کوئی علم و عمل میں بڑھا ہوا ہے تو کوئی جہاد و انفاق میں بڑھا ہوا ہے اور یہی معاملہ ان کے اخروی ثواب کا ہے کہ بعض کا اَجر بعض سے زیادہ ہے۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:۔
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ م بَعْدُ وَقٰتَلُوْا  (الحدید:۱۰)
۔’’اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی وراثت خدا ہی کی ہے جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کیے وہ) برابر نہیں، ان لوگوں کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد و قتال کیا اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے۔‘‘(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
