غیر مستند کتب سے بچئے
غیر معیاری غذا جسمانی نظام کو متاثر کرتی ہے اور بعض اوقات مختلف امراض کا ذریعہ بنتی ہے ، مرض بڑھ جانے پر ہلاکت بھی واقع ہو جاتی ہے جبکہ غیر مستند کتب اور لٹریچر روح اور دل و دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔۔۔ بالخصوص جبکہ ان کتب کا تعلق دینیات سے ہو۔۔۔ بسا اوقات آدمی بڑی عقیدت سے کسی دینی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے اور اس کے مضامین سے متاثر ہوتا ہے اور اسکے مطابق اپنے نظریات و اعمال کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔۔۔ حالانکہ کافی مسافت طے کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ فلاں وقت جوفلاں کتاب پڑھی تھی یہ سب اسی کا کرشمہ ہے۔۔۔
جب ہم جسمانی دوا کو کسی مستند معالج کے مشورہ کے بغیر استعمال کرنا جان کیلئے مہلک سمجھتے ہیں تودینی کتب کا انتخاب بھی مستند اہل علم کی رہنمائی کے بغیر کرنا اپنے ایمان کو دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔۔۔ غلط دوا زیادہ سے زیادہ مہلک جان بن سکتی ہے جبکہ غلط لٹریچر وکتابیں پوری زندگی کے نظریات و اعمال کو متاثر کرکے دنیا و آخرت کی تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔۔۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔ ایسی چیز مت دیکھو جس سے شک یا تردد پیدا ہو اور جو بلا قصد ایسی بات کان میں پڑ جائے تو بے التفاتی اختیار کرو اور کتنا ہی وسوسہ ستائے پرواہ مت کرو۔۔۔
ایک جگہ فرماتے ہیں اہل باطل کی تصانیف جو بظاہر مفید ہوں باطل کی جھلک ہوتی ہیں اور اہل حق اس کا پردہ فاش کردیتے ہیں اسی لئے باطل کی مفید تصانیف کا دیکھنا بھی مضر ہے۔۔۔ عوام کو کوئی کتاب علماء کے مشورہ کے بغیر ہرگز نہ دیکھنا چاہئے اوراگر کوئی کہے کہ میں تردید کیلئے دیکھتا ہوں تو بھی یہ مناسب نہیں کیونکہ یہ کام علماء کا ہے۔۔۔ تمہارا کام نہیں۔۔۔ عجیب تجربہ کی بات ہے کہ بد دین آدمی اگر کسی اور کی بات نقل بھی کرے مثلاً بد دین شخص کوئی کتاب لکھے گو اس میں کوئی مسئلہ بد دینی کا نہیں ہے مگر اس کے دیکھنے سے بھی (لکھنے والے کی) بد دینی کا اثردل میں ہوگا۔۔۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں غیر مستند لوگوں کی تصانیف سے دماغی تفریح تو ممکن ہے لیکن سکون قلب وروح اور محبت آخرت کا وجود عنقا ہی رہے گا۔۔۔
حضرت علامہ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ کے سامنے کسی شخص نے ہندوستان کے ایک بڑے ادیب اور حکیم الامت رحمہ اللہ کی تصانیف کے بارہ میں اپنا موازنہ ذکر کیا کہ ادیب صاحب کی کتب پڑھنے سے دل میں تکبر جبکہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتب پڑھنے سے عبدیت اور تواضع پیدا ہوئی ہے۔۔۔ آپ نے یہ موازنہ سن کر تصدیق فرمائی کہ واقعۃً بات اسی طرح ہے۔۔۔
اکابر امت کی مفید عام یہ تجاویز ہمارے لئے ہر دور میں نہات مفید وموثر ہیں اور آج کے دور میں جبکہ شروروفتن اپنی جڑیں معاشرہ میں مضبوط کرچکے ہوں۔۔۔ ہمیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مستند اکابر علما کی دینی کتب کا ذخیرہ اردو میں اس قدر موجود ہے کہ آدمی کو انکے مطالعہ سے فرصت نہیں مل سکتی۔۔۔ تو پھر ان مستند کتب کو چھوڑ کر غیر مستند کتب کے درپے ہونا عقلمندی نہیں۔۔۔
اس لئے تمام قارئین سے گزارش ہے کہ اس پرفتن دور میں اپنے عقائد و نظریات کی حفاظت اسی میں ہے کہ ہم غیر مستند کتب کی طرف بالکل نہ دیکھیں اور خود کو مستند اہل علم اور اہل اللہ کی مشاورت و سرپرستی میں دیدیں۔۔۔ اسی میں ہماری دینی بقا ہے۔۔۔
