Table of Contents
عید الفطر کی 9 سنتیں اور اعمال
عید الفطر کا دن خوشی اور شکر کا دن ہے ۔ یہ دین اسلام کا ایک بہت بڑا تہوار ہوتا ہے جو رمضان کے اختتام پر بطور انعام مسلمانوں کو عطا کیا گیا ہے۔ اس دن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزارنا بہت بڑی نیکی اور سعادت ہے اور گویا خوشی کو دوبالا کرنے والی بات ہے ۔ عید الفطر کی سنتیں اور اعمال اپنانے سے عید کی روح تازہ ہوتی ہے اور اجر و ثواب بھی بڑھتا ہے ۔ آپ بھی کوشش کریں کہ اس دن کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق گزاریں گے ۔ سب سے پہلی بات تو یہی ہوگی کہ اس دن صبح فجر کی نماز باجماعت ادا کریں ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ عید کی نماز کے لئے فجر کی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔ کیونکہ فجر فرض ہے ۔ اگر آپ سنتوں پر عمل کرنے کا ارادہ کرچکے ہیں لیکن فرض میں کوتاہی کررہے ہیں تو یہ بڑی ناقص بات ہوگی ۔
نیز ان عید الفطر کی سنتیں اور اعمال کے ساتھ ساتھ آپکو چاہئے کہ اپنے قریبی علمائے کرام سے رجوع کرکے ضروری عید الفطر کے مسائل بھی معلوم کرلیں ۔ ہم سب کی بحیثیت مسلمان یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا کوئی بھی قدم اللہ و رسول کے خلاف نہ ہو ۔ عید الفطر کی یہ نو سنتیں ہیں جن کو پڑھنے سے پہلے عمل کی نیت کرلیں تاکہ اگر کوئی عمل سے رہ بھی جائے تو نیت کا ثواب مل جائے ۔ اور خاص بات یہ ہے کہ سچے دل سے نیت کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل حال ہوجاتی ہے ۔
۔1۔ نمازِ عید سے پہلے کچھ کھا لینا (کھجوریں کھانا)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں نوش فرمایا کرتے تھے۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ، وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا (حدیث)۔
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن اس وقت تک نماز کے لیے تشریف نہیں لے جاتے جب تک چند کھجوریں نہ کھا لیتے، اور وہ طاق (یعنی 1،3،5) عدد میں ہوتی تھیں۔ رواه البخاري
۔2۔ غسل کرنا، خوشبو لگانا، اچھے کپڑے پہننا
عید کے دن پاکیزگی اختیار کرنا اور بہترین خوشبو استعمال کرنا سنت ہے۔
عن ابن عباسٍ رضي الله عنهما قال: كان رسولُ اللهِ ﷺ يلبَسُ يومَ العيدِ بُرْدَةً حمراءَ (حدیث)۔
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن سرخ چادر پہنتے تھے (یعنی عمدہ لباس پہنتے تھے)۔ رواه الطبراني ۔
۔3۔ صدقۃ الفطر ادا کرنا (نماز سے پہلے)۔
صدقۃ الفطر واجب ہے اور اسکے مسائل کو قریبی علمائے کرام سے سمجھ لینا چاہئے ۔ یہ نماز عید سے پہلے ادا کرنا افضل ہے۔
مَن أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَن أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِّنَ الصَّدَقَاتِ (حدیث)۔
مفہوم حدیث: جس نے نماز سے پہلے (صدقہ فطر) ادا کی وہ مقبول زکوٰۃ ہے، اور جس نے بعد میں دی، وہ (عمومی) صدقہ ہے صدقات میں سے۔ رواه أبو داود
۔4۔ نمازِ عید میدان میں ادا کرنا (اگر ممکن ہو)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کھلے میدان میں پڑھتے تھے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں بہ آسانی شریک ہو سکیں ۔ اس لئے جتنا بڑا مجمع ہوگا اُتنا زیادہ ثواب ہوگا ۔ لیکن آج کل کچھ جگہوں پر بڑے اجتماعات مسلمانوں کے لئے خطرہ ہوتے ہیں اور اُن میں خاطر خواہ سیکورٹی کا انتظام نہیں ہوتا ۔ ایسی جگہوں پر محفوظ مساجد میں عید پڑھ لینے سے بھی ادائیگی ہوجاتی ہے ۔
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ (حدیث)۔
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن لوگوں کے ساتھ باہر نکلتے اور نماز پڑھاتے تھے۔ رواه البخاري
۔5۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے راستہ بدلنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے لیے ایک راستے سے تشریف لے جاتے تو دوسرے سے واپس آتے۔
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ (الحدیث)۔
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کا دن ہوتا تو راستہ بدلتے تھے (یعنی واپسی دوسرا راستہ اختیار کرتے تھے) رواه البخاري
یہ بھی اک بہت پیاری سنت ہے کہ عید کے دن جب آپ ایک راستے سے جائیں گے تو دوسرے راستے سے واپس آتے وقت زیادہ سے زیادہ مختلف لوگوں سے ملاقات ہوگی اور سب ایک دوسرے کو عید کی خوشیاں، مبارکباد اور دعائیں دیں گے تو یہ عمل آپسی محبت کو بڑھانے والا اور عید کی خوشیاں دوبالا کرنے والا عمل ہے ۔
۔6۔ تکبیر کہنا (خصوصاً راستے میں)۔
عید الفطر کے دن فجر سے نماز تک تکبیر کہنا سنت ہے، مرد حضرات بلند آواز سے کہتے ہوئے جائیں ۔ تکبیرات کے الفاظ یہ ہوں گے ۔ یہ تکبیرات گلی، بازار، محلوں اور عیدگاہوں میں بہ آواز بلند پڑھی جائیں گی ۔ یہ مستحب عمل ہے ۔ اس سے مسلمانوں میں جوش و جذبہ اور عید کی خوشی پیدا ہوتی ہے ۔
اللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اللّٰهُ أَكْبَرُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۔
كان ابن عمر يخرج يوم الفطر فيكبّر حتى يأتي المصلّى، ويكبّر حتى يأتي الإمام ۔ رواه الدارقطني
۔7۔ نمازِ عید میں خطبہ سننا
عموماً خطبہ پہلے اور نماز بعد میں ہوتی ہے لیکن عید کے دن ایسا ہوتا ہے کہ عید کی نماز پڑھائے جانے کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ۔ اس خطبہ کو غور سے مکمل سننا مستحب ہے ۔
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ، وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ، فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ (الحدیث)۔
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھاتے، پھر منہ موڑ کر لوگوں کی طرف خطبہ دیتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرتے۔ رواه ابن ماجه
۔8۔ عید کے دن صلہ رحمی (رشتہ داروں سے ملاقات) کرنا
اگرچہ یہ عید کی خاص عبادت کی صورت میں وارد نہیں ہے مگر دینِ اسلام میں صلہ رحمی بہت اہم ہے، اور عید کے دن اس کا اہتمام اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ (الحدیث)۔
مفہوم حدیث: جو چاہتا ہے کہ اس کا رزق وسیع ہو اور عمر دراز ہو، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ رواه البخاري
۔9۔ مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دینا
صحابہ کرام عید کے موقع پر ایک دوسرے کو دعائیہ کلمات کہتے تھے:۔
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا الْتَقَوْا يَوْمَ الْعِيدِ، يَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُم
مفہوم حدیث: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ عید کے دن جب ایک دوسرے سے ملتے تو کہتے: تقبل الله منا ومنكم (اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے)۔ رواه البيهقي
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینا، دعائیں دینا اور خوشیوں میں ایک دوسرے سے اظہار کرنا یہ بھی محبوب عمل ہے ۔ دین اسلام کوئی خشک مذھب نہیں ہے کہ ہمیں اپنے جذبات اور احساسات کو ظاہر کرنے سے روکے ۔ بلکہ خوشیاں بانٹنا اور ایک دوسرے سے شریک کرنا یہی اسلامی تعلیمات ہیں ۔ جب تک انکو حکم کے مطابق دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے تو یہ باعث ثواب ہوتی ہیں اور ان پر کوئی مذمت نہیں کی جاتی ۔
یہ سب عید الفطر کی سنتیں اور اعمال و آداب ہیں ۔ انکو خوب شئیر کریں تاکہ یہ صدقہ جاریہ بن جائیں اور جو بھی آپکے شئیر کرنے سے ان پر عمل کرے گا اُسکا ثواب آپکو بھی ملے گا ۔
کچھ ایسے اعمال ہیں جن کو نہیں کرنا چاہئے !۔
۔1۔ عید کی نماز کے بعد گلے ملنا اور اسمیں شدت اختیار کرنا ۔ ایک دوسرے سے معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکو لازمی سمجھنا غلط ہے اور اسی طرح اس میں کچھ بے احتیاطی یہ ہوجاتی ہے کہ اتنے زور سے گلے ملتے ہیں کہ دوسرا آدمی تکلیف محسوس کرنے لگتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہئے ۔
۔2۔ عید والے دن خوشیاں اسلام کے مطابق منائیں ۔ صبح اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں، عید پڑھتے ہیں اور اچھے اچھے کام کرتے ہیں مگر پھر لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اب اسلامی تعلیمات ختم ہوگئیں العیاذباللہ ۔ اُسکے بعد گھروں کو جار کر گانے باجے اور حرام کاریوں کے مرتکب ہونے لگتے ہیں ۔ یہ بھی غلط ہے ۔ پورا دن فرائض کی پابندی اور اسلامی احکامات کے مطابق گزارنا ضروری ہے ۔
۔3۔ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو یہ دن اپنی رضا کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین ۔
عید الفطر کے متعلق دیگر مضامین اور مزید علمی و تحقیقی معلومات ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر موجود ہیں ۔ جو بھی مضمون آپکو پسند آئے ۔ نیچے دئے گئے شئیر کا بٹن استعمال کرتے ہوئے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
اس ویب سائٹ کے نئے مضامین کی معلومات اور اپڈیٹ اس واٹس ایپ چینل پر بھی شئیر کی جاتی ہے ۔ فالو ضرور کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M