عورت کے غیر مردوں سے گفتگو کے قرآنی حکم کی تفصیل
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
حق تعالیٰ فرماتے ہیں ـ :۔
فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض و قلن قولا معروفا(احزاب)
اس آیت کے ذیل میں فرمایا کہ اگر نرم لہجہ سے بات کی گئی تو جس کے دل میں روگ ہے ، اس کے دل میں لالچ پیدا ہوگا اور وہ لہجہ کی نرمی سے سمجھ لے گا کہ یہاں قابو چل سکتا ہے ۔ پھر وہ اس کی تدبیریں اختیار کرے گا ۔ دیکھئے! خود حق تعالیٰ لہجہ کی نرمی کا یہ اثر بتا رہے ہیں ، پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ اس اثر سے انکار کردے ۔ میں اپنی طرف سے تو نہیں کہہ رہا ہو بلکہ الفاظ ِ قرآنی صاف بتلا رہے ہیں کہ عورتوں کا مردوں سے نرم گفتگو کرنے کا یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں لالچ پیدا ہوتی ہے ۔اس کے بعد یہ بھی حکم ہے کہ و قلن قولا معروفا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب بات کرو بھی تو ایسی بات کرو جس کو شریعت میں اچھا مانا گیا ہو (یعنی)ایک تو یہ کہ بے ضرورت الفاظ مت بڑھاؤ کیونکہ شریعت اس کو کسی کے لئے پسند نہیں کرتی ، شریعت نے کم بولنے ہی کو پسند کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر بات سوچ کر کہو ، کوئی بات گناہ کی منہ سے نہ نکل جائے ۔ معروف کا مختصر ترجمہ معقول ہے تو معنی یہ ہوئے کہ معقول بات کہو ۔ معقول بات وہی ہوتی ہے جس سے کوئی برا نتیجہ پیدا نہ ہو اور جب ثابت ہو چکا کہ لہجہ کی نرمی سے بھی عورتوں کے لئے برا نتیجہ پیدا ہوتا ہے تو پیار محبت کی باتوں سے کیوں برا نتیجہ پیدا نہ ہوگا جس کو آج کل تہذیب سمجھا گیا ہے ۔ اس قسم کی باتیں عورتوں کے لئے معقول نہیں بلکہ نامعقول ہیں۔ ( احکام ِ پردہ عقل و نقل کی روشنی میں،صفحہ ۷۱)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات احکام پردہ کے متعلق ہیں ۔ ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

