عوام کا حدود اربعہ
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں:۔
تقلید کا سب سے پہلا درجہ ’’عوام کی تقلید‘‘ کا ہے۔۔۔ یہاں ’’عوام‘‘ سے ہماری مراد مندرجہ ذیل اقسام کے حضرات ہیں۔۔
۔1۔۔۔ وہ حضرات جو عربی زبان اور اسلامی علوم سے بالکل ناواقف ہوں‘ خواہ وہ دوسرے فنون میں کتنے ہی تعلیم یافتہ اور ماہر و محقق ہوں۔۔۔
۔2۔۔۔ وہ حضرات جو عربی زبان جانتے اور عربی کتابیں سمجھ سکتے ہوں۔۔۔ لیکن انہوں نے تفسیر و حدیث و فقہ اور متعلقہ دینی علوم کو باقاعدہ اساتذہ سے نہ پڑھا ہو۔۔۔
۔3۔۔۔ وہ حضرات جو رسمی طور پر اسلامی علوم سے فارغ التحصیل ہوں۔۔۔ لیکن تفسیر‘ حدیث و فقہ اور ان کے اصولوں میں اچھی استعداد اور بصیرت پیدا نہ ہوئی ہو۔۔۔ یہ تینوں قسم کے حضرات تقلید کے معاملے میں ’’عوام‘‘ ہی کی صف میں شمار ہوں گے‘ اور تینوں کا حکم ایک ہے۔۔۔ اس قسم کے عوام کو ’’تقلید محض‘‘ کے سوا چارہ نہیں‘ کیوں کہ ان میں اتنی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ براہ راست کتاب و سنت کو سمجھ سکیں‘ یا اس سے متعارض دلائل میں تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کر سکیں۔۔۔
لہٰذا احکام شریعت پر عمل کرنے کے لئے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کسی مجتہد کا دامن پکڑیں اور اس سے مسائل شریعت معلوم کریں۔۔۔ عوام کیلئے اس طرز عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے‘ ورنہ احکام شریعت کے معاملے میں جو شدید افراتفری برپا ہو گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ (از تقلید کی شرعی حیثیت)
