علماء میں اختلاف ہو تو عوام کیا کریں؟

علماء میں اختلاف ہو تو عوام کیا کریں؟

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
بہت سے حضرات مسائل میں علماء کے اختلافات سے پریشان ہو کر پوچھا کرتے ہیں کہ ہم کدھر جائیں جس کی تہہ میں یہ پوشیدہ ہوتا ہے کہ اب ہم کسی کی نہ سنیں۔۔۔۔ سب سے آزاد ہو کر جو سمجھ میں آئے کیا کریں، اور بظاہر ان کا یہ معصومانہ سوال حق بجانب نظر آتا ہے۔۔۔۔ لیکن ذرا غور فرمائیں تو ان کا جواب اپنے گردوپیش کے معاملات میں خود ہی مل جائے گا۔۔۔۔
ایک صاحب بیمار ہوئے۔۔۔۔ ڈاکٹروں یا حکیموں کی آراء میں تشخیص و تجویز کے بارے میں اختلاف ہو گیا تو وہ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔ یہی ناکہ وہ ان ڈاکٹروں، حکیموں کی ڈگریاں معلوم کر کے یا پھر ان کے مطب میں علاج کرانے والے مریضوں سے یا دوسرے اہل تجربہ سے دریافت کر کے اپنے علاج کے لئے کسی ایک ڈاکٹر کو متعین کر لیتے ہیں۔۔۔۔ اس کی تشخیص و تجویز پر عمل کرتے ہیں مگر دوسرے ڈاکٹروں، حکیموں کو برا بھلا کہتے نہیں پھرتے۔۔۔۔ یہاں کسی کا یہ خیال نہیں ہوتا کہ معالجوں میں اختلاف ہے تو سب کو چھوڑ دو۔۔۔۔ اپنی آزاد رائے سے جو چاہو کرو۔۔۔۔
کیا یہی طرز عمل علماء کے اختلاف کے وقت نہیں کر سکتے؟
ایک مثال اور لیجئے۔۔۔۔ آپ کو ایک مقدمہ عدالت میں دائر کرنا ہے۔۔۔۔ قانون جاننے والے وکلاء سے مشورہ طلب کیا۔۔۔۔ ان میں اختلاف رائے ہوا تو کوئی آدمی یہ تجویز نہیں کرتا کہ مقدمہ دائر کرنا ہی چھوڑ دے، یا پھر کسی وکیل کی نہ سنے۔۔۔۔ خود اپنی رائے سے جو سمجھ میں آئے وہ کرے، بلکہ ہوتا یہی ہے کہ مختلف طریقوں سے ہر شخص اپنی تحقیق کر لیتا ہے کہ ان میں کونسا وکیل اچھا جاننے والا اور قابل اعتماد ہے اس کو اپنا وکیل بنا لیتا ہے اور دوسرے وکیل کو باوجود اختلاف کے دشمن نہیں سمجھتا، برا بھلا نہیں کہتا اس سے لڑتا نہیں پھرتا۔۔۔۔یہی فطری اور سہل اصول اختلاف علماء کے وقت کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔۔۔۔ یہاں ایک بات یہ بھی سن لی جائے کہ بیماری اور مقدمے کے معاملات میں تو آپ نے کسی غلط ڈاکٹر یا غیر معتمد وکیل پر اعتماد کر کے اپنا معاملہ اس کے حوالہ کر دیا تو اس کا جو نقصان پہنچتا ہے۔۔۔۔ وہ ضرور آپ کو پہنچے گا۔۔۔۔ مگر علماء کے اختلاف میں اس نقصان کا بھی خطرہ نہیں۔۔۔۔
حدیث شریف میں ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی عالم سے سوال کیا اور اس نے فتویٰ غلط دے دیا تو اس کا گناہ سوال کرنے والے پر نہیں بلکہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے۔۔۔۔ شرط یہ ہے کہ سوال اس شخص سے کیا گیا ہو جس کا عالم ہونا آپ نے ایسی ہی تحقیق و جستجو کے ذریعہ معلوم کیا ہو جو اچھے معالج اور اچھے وکیل کی تلاش میں آپ کیا کرتے ہیں۔۔۔۔ اپنی مقدور بھر صحیح عالم کی تلاش و جستجو کر کے آپ نے ان کے قول پر عمل کر لیا تو آپ اللہ کے نزدیک بری ہو گئے۔۔۔۔
اگر اس نے غلط بھی بتا دیا ہے تو آپ پر اس کا کوئی نقصان یا الزام نہیں۔۔۔۔ ہاں یہ نہ ہونا چاہئے کہ ڈاکٹر کی تلاش میں تو اس کا ایم۔۔۔۔ بی۔۔۔۔ بی۔۔۔۔ ایس ہونا بھی معلوم کریں اور یہ بھی کہ اس کے مطب میں کس طرح کے مریض زیادہ شفایاب ہوتے ہیں مگر عالم کی تلاش میں صرف عمامے، کرتے اور ڈاڑھی کو زیادہ سے زیادہ جلسے میں کچھ بول لینے کو معیار بنالیں۔۔۔۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اپنی ذمہ داری سے بری نہیں۔۔۔۔ اس نے جواب میں کوئی غلطی کی تو آپ بھی اس کے مجرم قرار پائیں گے۔۔۔۔‘‘۔
(وحدت امت صفحہ ۴۹)
اس لئے علماء میں بھی اس کی تعلیم کے ساتھ اس کی زندگی بھی دیکھیں کہ کس کی زندگی سنت کے مطابق زیادہ ہے کس کی کم، کس میں دنیا کی طمع ہے اور کون آخرت کی طرف زیادہ راغب ہے۔۔۔۔ اس سے تعلق رکھنے والوں کو بھی دیکھیں کہ ان میں بھی دینداری، خوف خدا، اتباع سنت، آخرت کی رغبت ہے یا نہیں۔۔۔۔
ان سب چیزوں میں غوروفکر کرنے کے بعد جس پر اعتماد زیادہ ہو اس کا اتباع کریں۔۔۔۔ مگر احترام دوسرے علماء کا بھی لازم ہے اور ضروری ہے۔۔۔۔ نہ یہ کہ دوسرے علماء کی شان میں گستاخیاں کرنے لگیں کہ یہ انتہائی خطرناک ہے۔۔۔۔
جیسا کہ آج کل عام طور پر ہو رہا ہے کہ اپنے مخالف عالم کو فاسق فاجر تک کہنے سے نہیں چوکتے بلکہ اب تو اس کے ایمان تک کے حملے کئے جاتے ہیں۔۔۔۔
’’فَاِلَی اﷲِ المْشْتَکٰی‘‘
قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی نور اللہ مرقدہ تحریر فرماتے ہیں:’’عوام نے مسائل میں رائے زنی کو خواہ مخواہ اپنا مشغلہ بنا لیا۔۔۔۔
ان کو اہل علم کے اختلاف میں حکم بننے کی کیا ضرورت ہے کہ ان کے علمی ابحاث، ان کے علمی دلائل سمجھنے کی اہلیت نہیں۔۔۔۔ لیکن ان میں محاکمہ اور فیصلے یہ حضرات فرمانے لگے، حالانکہ ان کا کام یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس کے ساتھ حسن عقیدت ہو تجربہ سے اس کا دیندار تجربہ کار ہونا اور اللہ والا ہونا ثابت ہو چکا ہو اس کا اتباع کرتے لیکن یہ تو جب ہوتا جب عمل مقصود ہوتا۔۔۔۔
یہاں مقصود ہی نزاع ہے۔۔۔۔ اس جلسہ اور اس تقریر میں ان کو لطف بھی نہیں آتا جس میں دوسروں پر سب وشتم نہ ہو، دوسروں پر تنقید نہ ہو، دوسروں کی پگڑیاں نہ اچھالی جاتی ہوں۔۔۔۔ جس جلسہ میں سیدھی سیدھی دین کی باتیں بیان کی جائیں وہ جلسہ نہایت پھیکا اور بے مزہ ہے۔۔۔۔ وہ واعظ ہی نہیں تقریر جانتا ہی نہیں۔۔۔۔ ماہر تقریر وہی ہے جو مخالفین کو کھری کھری سنائے۔۔۔۔‘‘ (الاعتدال صفحہ ۲۱۰)
ایک دوسری جگہ ارشادفرماتے ہیں:۔
۔’’حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو یا اس کا عالم باعمل ہونا محقق ہو جائے اس کے ارشادات پر عمل ہو۔۔۔۔ لیکن ہم لوگوں میں باوجود ادعائے محبت و عقیدت عمل تو ندارد ہے۔۔۔۔ ساری محبت کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے بڑے کی حمایت میں دوسروں کے بڑوں کو گالیاں دیں۔۔۔۔ کلام اللہ شریف جس کی تعلیم مسلمان کا ایمان ہے وہ تو اس بارے میں اتنا سخت ہے کہ:۔
وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَیَسَبُّوا اﷲَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ( انعام )
ترجمہ:۔۔۔۔ ’’ ارشاد ہے کہ تم گالیاں نہ دو ان (معبودوں) کو جو یہ مشرک اللہ (کی توحید) کو چھوڑ کر پکارتے ہیں۔۔۔۔ (اور عبادت کرتے ہیں کیونکہ تمہارے ایسا کرنے سے) پھر وہ لوگ بوجہ جہل کے حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے۔۔۔۔‘‘۔
قرآن پاک تو دوسروں کے بتوں کو گالیاں دینے کی بھی ممانعت کرتا ہے لیکن اس کے اتباع کے دعویداروں کا یہ عمل کہ ان کا کوئی جلسہ کوئی جلوس بھی دوسروں کی بربادی کے نعروں سے ان کے اکابر پر سب و شتم سے خالی نہیں ہوتا، آج کل ہر جماعت کا معظم عمل بجائے اپنی تعمیر اپنی تقویت اور عمل کی تدابیر کے دوسروں کی تخریب، ان کو گالیاں دینا، مردہ باد کے نعرے لگانا بن گیا ہے۔۔۔۔
پھر لطف یہ ہے کہ اس کی شکات بھی ہر فریق کو ہے کہ مسلمان تباہ ہو گئے، برباد ہو گئے، خود ہی فریق دوسرے مسلمانوں کی بربادی کی دعائیں کرتا ہے اور خود ہی اس کا رونا روتا ہے کہ مسلمان برباد ہو گئے۔۔۔۔ فاﷲ المستعان۔۔۔۔ (الاعتدال صفحہ ۲۱۳)

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more