عذر اور سستی میں فرق (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
ارشاد فرمایا کہ جب بھی سستی ہو، اس سستی کا مقابلہ کرنا چاہیے اور معمول کو پورا کرنا چاہئے، دیکھئے!عذر اور چیز ہے، سستی اور چیز ہے۔ اگر عذر کی وجہ سے معمول چھوٹ جائے تو پھر کوئی غم نہیں۔ مثلاً بیماری کی وجہ سے معمول چھوٹ گیایا سفر کی وجہ سے معمول چھوٹ گیا، اس میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس پر مواخذہ نہیں کیابلکہ عذر کی وجہ سے رعایت دی ہے تو پھر ہم خود کون ہوتے ہیں پابندی کرانے والے؟ اس لیے کسی عذر کی وجہ سے اس کے چھوٹنے پر رنج نہیں کرنا چاہئے۔ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب قدس اللہ سرہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات نقل فرماتے تھے کہ ایک شخص رمضان میں بیمار ہو گیااور بیماری کی وجہ سے روزہ چھوٹ گیا، اب اس کو اس بات کا غم ہو رہا ہے کہ رمضان کا روزہ چھوٹ گیا۔حضرتؒ فرماتےہیں کہ غم کرنے کی کوئی بات نہیں، اس لئے کہ یہ دیکھو کہ تم روزہ کس کے لئے رکھ رہے ہو ؟ اگر تم اپنی ذات کے لئے، اپنا جی خوش کرنے کے لئے اور اپنا شوق پورا کرنےکے لئے روزہ رکھ رہے ہوپھر تو بیشک اس پر غم اور صدمہ کرو کہ بیماری آگئی اور روزہ چھوٹ گیالیکن اگر اللہ تعالیٰ کے لئے روزہ رکھ رہے ہو تو پھر غم کرنے کی ضرورت نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو خود فرما دیا ہے کہ بیماری میں روزہ چھوڑ دو۔لہٰذا اگر شرعی عذر کی وجہ سے روزے قضاء ہورہے ہیں یا معمولات چھوٹ رہے ہیں، مثلاً بیماری ہے، سفر ہے ، یا خواتین کی طبعی مجبوری ہے یا کسی زیادہ اہم مصروفیت کی وجہ سے جو دین ہی کا تقاضہ تھی معمول چھوٹ گیا مثلاً ماں باپ بیمار ہیں، ان کی خدمت میں لگا ہوا ہےاور اس خدمت کی وجہ سے معمول چھوٹ گیا تو اس سے بالکل رنجیدہ اور غمگین نہ ہونا چاہئے لیکن سستی کی وجہ سے معمول کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ عذر کی وجہ سے چھوٹ جائے تو اس پر رنجیدہ نہ ہونا چاہئے۔
۔(سُستی کا علاج، اصلاحی خطبات، جلد پنجم، صفحہ۱۱۴)۔
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

