عالم ِ دین ….اگر بے عمل ہوتو؟ (14)۔

عالم ِ دین ….اگر بے عمل ہوتو؟ (14)۔

علم ایک بہت بڑی فضیلت والی چیز ہے اور بالخصوص علم دین حاصل کرنے والوں کے لئے دینِ اسلام میں بہت ساری خوشخبریاں اور فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ مگر کچھ نادان لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ عالم کی کوئی فضیلت نہیں کیونکہ وہ تو بے عمل ہے۔ فلاں فلاں عمل شریعت کے خلاف ہے۔ اس پر یہ بات یاد رکھیں کہ کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہوتا کہ ہر گناہ سے معصوم ہو۔ اوردوسری بات یہ ہے کہ بے عمل ہونے سے عالم کا علم بیکار نہیں ہوتا بلکہ میں آپکو چند ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن کو پڑھ کر اندازا ہوگا کہ وہ اگرچہ بے عمل بھی ہو پھر بھی وہ ہم جیسے عام لوگوں سے ہزار ہا درجہ بہتر ہے اور لائق تکریم ہے۔
پہلی اور سب سے اہم بہتری جو کہ اکثر علمائے کرام سمجھاتے ہیں کہ اگر کوئی عالم دین بے عمل ہو تب بھی وہ عام جاہل گنہگاروں سے افضل ہے کیونکہ خواہ وہ گناہ کے راستے پر کتنا ہی دور کیوں نہ ہو مگر اُسکو واپسی کا راستہ معلوم ہے۔ ذرا کایا پلٹی اور ادھر واصل ہوگیا جب کہ عام آدمی کو جب توبہ کا خیال آتا ہے تو گناہ تو فوری دھل جاتےہیں مگر پھر اِسکے بعد واپسی کا راستہ بہت لانبا ہوتا ہے جس میں بہت کچھ سیکھنا سکھانا ہوتا ہےاور جدو جہد کرنی ہوتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم دین سے جب بھی کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اِسکو گناہ سمجھ کرکررہا ہوتا ہے جسکی وجہ سے بعد میں ندامت ہوتی ہے اور توبہ کی توفیق بھی مل جاتی ہے ۔ کبھی بھی اپنے گناہ پر وہ جری نہیں ہوسکتا۔ جبکہ عام آدمی ایک گناہ کو دو تین مرتبہ کرلینے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ اس گناہ میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے کچھ نوجوان روزانہ بازاروں میں نکل کر بدنظری کرتے ہیں اور نصیحت کرو تو جواب دیتے ہیں کہ یہ شغل میلہ ہےیا کہہ دیتے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائےگا۔ یا پھر اپنے گناہ کے جواب میں کہتے ہیں کہ اِس سے کچھ نہیں ہوتا۔ نعوذباللہ۔
تیسری برتری یوں ہے کہ عالم کی مثال ایک طبیب جیسی ہے کہ اگر طبیب کبھی بدپرہیزی کربیٹھے تو اُسکو علاج معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات بدپرہیزی کے بعد اگر طبیب دوا کو فوراً استعمال کرلے تو پہلے سے زیادہ اچھی صحت ہوجاتی ہے جبکہ عام آدمی اُس غافل شخص کی طرح ہے کہ بدپرہیزی بھی کرتا ہو اور صحت بھی خراب کررہا ہومگر اس چیز کا شعور ہی نہ ہو حتیٰ کہ جب پانی سر سے گزر جائے تو پھر علاج کا خیال آئے۔ تو گویا عالم ِ دین اگر بے عمل بھی ہو تب بھی اُسکی نیکیاں، گناہوں کو مٹانے کے لئے کافی ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ کئی ایسے نیک اعمال ہیں جو اُسکو بخوبی معلوم ہیں مگر عام آدمی کو علم نہیں ہوتا۔
تو ایسی کئی وجوہات ہیں جن کی بناء پر یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ عالمِ دین خواہ بے عمل ہی کیوں نہ ہو۔وہ ہم جیسے عام، غافل گنہگاروں سے ہزار درجہ بہتر اور لائق عزت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو علمائے ربانیین کرام کی محبت نصیب فرمائے۔آمین ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online/
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more