طالب ِ علمی کے زمانہ میں بیعت کی درخواست
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
ارشاد فرمایا کہ طالب ِ علمی کے زمانہ میں کسی دوسری طرف متوجہ ہونا تعلیم کو برباد کرنا ہے۔ طالبِ علم کے لیے جمعیت ِ قلب اور یکسوئی ضروری چیز ہے ، اس کے برباد ہونے سے تعلیم برباد ہوتی ہے ۔ میں نے(اپنے) زمانہ طالب ِ علمی میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کی درخواست کی تھی ۔ اس پر حضرت ؒ نے یہ فرمایا تھا کہ جب تک کتابیں ختم نہ ہوجائیں ، اس خیال کو شیطانی سمجھنا۔ واقعی یہ حضرات بڑے حکیم ہیں ، کیسی عجیب بات فرمائی ۔ ایک وقت میں قلب دو طرف متوجہ نہیں ہوسکتا، پس ضروری کو غیر ضروری پر ترجیح دینا چاہیے اور طالب ِ علمی ضروری ہے اور بیعت ضروری نہیں ۔ اس وقت اس طرف متوجہ ہونے سے نہ تعلیم ہی ہوگی اور نہ ہی یہ (مشغلہ )ہوگا ، اس لیے کہ طالب ِ علمی کے زمانہ میں اگر شیخ نے ذکر و شغل کی تعلیم کی تو اس طرف مشغول ہونا بھی ضروری ہوگا اور طالب ِ علمی میں یکسوئی اور جمعیت ِ قلب کی ضرورت ہے ۔ پس اس میں دو متضاد چیزوں کا جمع کرنا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ذکر و شغل کا نفع نہ ہوگا اور پھر مایوسی ہوگی اور شیخ سے بیٹھے بٹھلائے بدگمانی پیدا ہوگی ۔ سو اچھا خاصا خلجان مول لینا ہے ، یہ تو بعد انفراغِ تعلیم ہی مناسب ہے اور اگر شیخ سے کچھ تعلیم حاصل نہ کی تو بیعت کا کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ البتہ اصلاحِ اخلاق زمانہ طالب ِ علمی میں بھی ضروری ہے سو اس کے لیے بیعت شرط نہیں اور اس میں کچھ وقت بھی صرف نہیں ہوتا جس سے طالبِ علمی کے شغل میں مزاحمت ہو۔(آداب ِ شیخ و مرید، صفحہ ۲۱۹)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات شیخ و مرید کے باہمی ربط اور آداب سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

