صنف نازک کو جاب کے نام پر مشقت میں نہ ڈالیں (197)۔
لاریوں میں خواتین کا میزبان کے طور پر کام کرنا ایک ایسا قبیح عمل ہے جس پرہمیں غور کرنا چاہئے۔ ایک بس جو لمبے لمبے سفر کرتی ہے اس میں میزبان (بس ہوسٹس)کا کردار کسی مرد کے بجائے خواتین کو سونپنا سمجھ سے بالا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ٹکٹ چیک کرنا، پانی فراہم کرنا، کھانا تقسیم کرنا، یا مسافروں کی ضرورت پوری کرنا ایسے کام نہیں ہیں جو صرف خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔ یہ سب کام مرد حضرات بھی بخوبی بلکہ بہتر انداز میںکر سکتے ہیں۔
میرے مطابق (بس ہوسٹس کی)صرف اور صرف یہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ مرد مسافر حضرات اپنی نظروں کو ٹھنڈک دینے کے لئے لڑکی کو بس ہوسٹس کی صورت میں دیکھنا پسند کرتے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ کمپنیوں سے میں نے باقاعدہ یہ سوال پوچھا کہ آپ لوگ لڑکیاں کیوں اس کام کے لئے مقرر کرتے ہیں تو اُنکا جواب یہی تھا کہ مسافروں کی پسندیدگی اور ڈیمانڈ کی وجہ سے۔۔۔
ذرا غور کریں کہ اگر لاہور سے ملتان کا سفر چار گھنٹے کا ہو اور ایک دن میں تین چکر ہوں تو یہ صنف نازک کے لیے کتنی تھکادینے والی ذمہ داری ہوگی۔ حالانکہ شریعت اسلامی نے عورتوں کو گھر کے سکون اور تحفظ کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کا مشورہ دیا ہے مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں انہیں چار دیواری سے باہر نکلنے اور مردوں سے بھی زیادہ محنت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سوچئے ! ایک دن میں چار گھنٹوں کے تین مرتبہ سفر خود مردوں کے لیے بھی تھکن سے بھرپورہوسکتے ہیں ،
تو پھر صنف نازک کا کیاحال ہوتا ہوگا؟
ایک واقعہ میرے سامنے پیش آیا جو میرے اس مضمون کو لکھنے کی وجہ بنا۔ میں لاہور سے واپس آ رہا تھا اوردرمیانی منزل یعنی رجانہ کےقیام گاہ پر بس رُکی۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہواکہ مقررہ وقت کے مطابق روانگی میں تاخیر ہو رہی ہے، تو سب نے چہ میگوئیاں شروع کردیں۔ میں نے تجسس میں بس سے اُتر کر میزبان سے پوچھا کہ کس بات کی تاخیر ہے؟
انہوں نے بتایا کہ ساتھ والی بس کی میزبان لڑکی (بس ہوسٹس)کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔
یہ سن کر میں نے کہا: ہمیں تو نکلنا چاہئے۔ کوئی دوسری عورت اُسکی دیکھ بھال کرلےگی۔
بس ہوسٹس نے جواب دیا کہ اُس بس میں ایک بوڑھی خاتون کے علاوہ کوئی بھی عورت نہیں ہے اوراس وقت یہاں سروس ایریا میں بھی باقی سب مرد ہیں، تو مجبوراًہمیں رُکنا پڑ رہا ہے۔
میں خاموش ہوگیا اور اُس بس کے پاس گیا جہاںوہ مریضہ تھی۔میں نے دیکھاکہ ایک نوجوان لڑکی بے ہوشی کی حالت میں اپنی کرسی سے نیچے گرتی جارہی ہے۔کچھ لڑکوں نے آگے بڑھ کراسے اٹھایا اور بس سے باہر لائے۔باہرلکڑی کے ایک تخت پوش پر اُسکو لٹا دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم اس کے گرد اکٹھا ہو گیا۔ خوش قسمتی سے، ایک مسافرڈاکٹر بھی موجود تھا۔اس نے لڑکی کا معائنہ کیا اور بتایا کہ اس کا بلڈ پریشر انتہائی کم ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بے ہوش ہے۔ ڈاکٹرنے ہدایت دی کہ اسکے پاؤں تھوڑا سا اوپر کریں اور پاؤں کی تلی کو مسل کر کچھ گرمائش دیں۔ ایک دو لڑکوں نے نے اس کے پاؤں دبانا شروع کیے تاکہ خون کی روانی بہتر ہو سکے۔
یہ سب منظر دیکھتے ہوئے میں یہ سوچنے لگا کہ وہ مریضہ ایک صنف نازک ہے،اپنے گھر سے کتنی دور ہے، گھر والے کس قدر پریشان ہوں گے، اس بے سروسامانی کی حالت میں رات کے وقت وہ ایک جنگل میں موجود ہے۔اس واقعہ نے دل کو جھنجھوڑ دیا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر دل میں یہ سوال اٹھا کہ ہم نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنی بہن بیٹیوں کو ایسی سختیوں میں کیوں ڈال رکھا ہے؟
میری رائے یہی ہے کہ خواتین کو ان مشقت بھرے اور خطرناک کاموں سے دور رکھنا چاہیے۔ ہوسکتا ہےکہ یہ لڑکی روزگار کے لیے مجبور ہو، مگرہمیں بحیثیت مسلم معاشرہ سوچنا چاہئے کہ خواتین کو ایسے مواقع فراہم ہوںجہاں وہ شریعت مطہرہ کے دائرے میں رہتے ہوئے جاب کر سکیںاور اپنے حالات کو بہتر بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

