صلح کروانے کے لئے ثالثی کے تین اہم نکات (199)۔

صلح کروانے کے لئے ثالثی کے تین اہم نکات (199)۔

جھگڑوں اور فسادات کے فیصلے دو اہم طریقوں سے کیے جاتے ہیں۔ پہلا طریقہ وہ ہے جو عدالتوں کے ذریعے اختیار کیا جاتا ہے مگر اکثر عوام عدالتی فیصلے سے دور رہتی ہے کیونکہ یہ ایک طویل اور تھکادینے والا عمل ہوتا ہے جس میں وقت اور وسائل کا بےپناہ استعمال ہوتا ہے اور اکثر لوگ مایوس بھی ہوتے ہیں۔ دوسرا طریقہ، جو ہمارے روایتی معاشرتی نظام میں خاص اہمیت رکھتا ہے، وہ ہے کسی بزرگ یا معتبر شخصیت کو ثالثی بنا کر فیصلہ کروانا۔ یہ طریقہ عدالتوں کے وجود سے قبل سے رائج ہے، جس میں خاندان ، علاقہ یا محلہ کے بزرگ کو اپنا ثالثی بنا کر پنچایت قایم کی جاتی ہے۔ خاندان کے بڑے جیسے دادا، چچا،ماما یا کوئی اور اپنی عمر یا اثر و رسوخ کی وجہ سے خاندان کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
لیکن ان پنچایتوں میں کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جھگڑے ختم ہونے کی بجائے بعض اوقات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
خاص طور پر تین باتیں جو مشاہدہ میں آئی ہیں:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک منصفانہ فیصلہ تب ہی ممکن ہے جب ثالث دونوں فریقوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے اور کسی ایک کو زیادہ معزز یا باوقار سمجھ کر اپنے دل میں جھکاؤ نہ رکھے۔ اگر ثالث کسی ایک فریق کی عزت یا حیثیت کی وجہ سےمرعوب ہوگا تو یقیناً فیصلے میں گڑبڑ ہوگی۔ اکثر اوقات کسی ایک فریق کی عمر، حیثیت یا اثر و رسوخ کو دیکھ کر فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ بڑا شخص ہے تو ٹھیک ہی ہوگا۔ جبکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ چھوٹے اور بڑے، دونوں کو مساوی اہمیتہو۔بوقت پنچایت کوئی فرق نہ کرنا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہےکہ ہر فریق کی بات مکمل سننے اور سمجھے بغیر فیصلہ نہ کرناچاہئے۔ بسا اوقات ثالث ایک فریق کی بات سن کر اپنے ذہن میں فیصلہ بنا لیتا ہے اور دوسرے کی بات سننے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ یہ عمل نہ صرف انصاف کے منافی ہے بلکہ یہ بھی ایک بڑے جھگڑے کا موجب ہوجاتا ہے کیونکہ پنچایت بھی لگتی ہے اور فریق آمنے سامنے بھی ہوتے ہیں مگر ثالثی نے پہلے سےاپنے دماغ میں فیصلہ کررکھا ہوتا ہے تو اُس شخص کی تذلیل ہوتی ہے جوپنچایت میں  آکر اپنی بات کرنا چاہتا تھا۔ ثالث کو چاہیے کہ کھلے دل اور خالی ذہن کے ساتھ فریقین کی باتوں کو غور سے سنےاور مکمل سنے۔اس طرح  فریقین کو بھی تشفی ہوگیکہ ان کی بات سنی اور سمجھی گئی ہے۔
جب ثالث دونوں کی باتیں سن لے تو اسکے لیے اب ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کو دلائل کی روشنی میں پرکھے اور اس کے بعد جو فریق غلطی پر ہو اسے نہایت شفقت اور ہمدردی سے سمجھائے۔ اسے بتائے کہ اس جگہ پر وہ غلطی کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں دیا جارہا ہے۔
ایک بہترین ثالث وہ ہوتا ہے جو فریقین کے سامنے اپنی بات کو دلیل اور وضاحت کے ساتھ پیش کرسکے اور اپنے فیصلے کی وجہ سمجھائے ۔ ثالث کا فرض ہے کہ وہ فیصلہ زبردستی نافذ نہ کرے بلکہ دونوں کو اعتماد میں لے تاکہ امن اور اتفاق سے مسئلہ حل ہوسکے۔
پس میری رائے یہ ہے کہ جو بھی کسی کو ثالث بنائے تو اُسکی ہر بات کو بلادلیل بھی ما ن لے یہی پورے اعتماد کا اظہار ہے مگر خود اُس ثالث کو چاہئے کہ ان ذمہ داریوں کا احساس کرے تاکہ جو بھی جھگڑا اور فساد تھا وہ مصلحت کے ساتھ ختم ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم نصیب فرمائیں اور مصالحت کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین ۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more