صحبت کا اثر
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
ارشاد فرمایا کہ صحبت ِ نیک اکسیر کا حکم رکھتی ہے اور ہر انسان میں قبولِ اثرِ صحبت کا مادہ ہے خواہ نیک ہو یابد۔ انسانی طبیعت میں خاصہ سارقہ کا ہے(یعنی فطرت ِ انسانی میں دوسروں کی عادات چرانے یا نقل کرنے کا مادہ ہے ) اس لیے صحبت کی بہت ضرورت ہے ۔ محض ذکر و شغل اور نرا علم کافی نہیں ؎
یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء
اس پر ایک حکایت بیان فرمائی کہ ایک عالم اہلِ ظاہر خوش عیش خوش عشرت شوقین طبع تھے۔ بڑی بڑی تعمیریں کرائی تھیں۔ ایک صاحب ِ حال بزرگ تشریف لائے اور فرمایا مجھے وضو سکھا دو۔ آفتابہ سلفچی(لوٹا، ہاتھ منہ دھونے کا برتن) وغیرہ منگایا ، ان سے کہا بسم اللہ پڑھئے ۔ بسم اللہ پڑھی، پھر کہا تین مرتبہ ہاتھ دھوئیے ، وہ چوتھی مرتبہ بھی دھونے لگے ، انہوں نے کہا یہ ناجائز و ممنوع ہے۔دریافت فرمایا کیوں؟ کہا اسراف ہے۔ فرمایا کہ عبادات میں تو اسراف ہے اور ان عمارات میں نہیں ۔ سنتے ہی ایک
حالت طاری ہوئی اور سب ترک کردیا۔ پھر فرمایا چونکہ حق پرست تھے اور طلب ِ حق کا مادہ ان میں ودیعت رکھا تھا اس وجہ سے بے چون و چرا قبول کیا۔(آداب ِ شیخ و مرید، صفحہ ۸۴)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات شیخ و مرید کے باہمی ربط اور آداب سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

