صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کا طرزِ عمل

صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کا طرزِ عمل

اسی کے ساتھ صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ماتحت جو ان میں اختلاف رائے پیش آیا ہے اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیار کی ہو۔۔۔۔ باہمی اختلافِ مسائل کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا اور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہکار ہے۔۔۔۔
سیاسی مسائل میں مشاجراتِ صحابہ کا فتنہ تکوینی حکمتوں کے ماتحت پیش آیا۔۔۔۔ آپس میں تلواریں بھی چل گئیں۔۔۔۔ مگر عین اسی فتنہ کی ابتدا میں جب امام مظلوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ باغیوں کے نرغے میں محصور تھے اور یہی باغی نمازوں میں امامت کراتے تھے تو امامِ مظلوم نے مسلمانوں کو ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور عام ضابطہ یہ بتا دیا کہ:۔
’’اِذَا اَحْسَنَ النَّاسُ فَاَحْسِنْ مَعَھُمْ وَاِذَا اَسَائُ وْا فَاجْتَنِبْ اِسَائَتَھُمْ‘‘
(صحیح البخاری، الصلاۃ، باب امامۃ المفتون، الرقم: ۶۹۵)
یعنی جب وہ لوگ کوئی نیک کام کریں اس میں ان کے ساتھ تعاون کرو اور جب کوئی برا کام اور غلط کام کریں اس سے اجتناب کرو۔۔۔۔ اس ہدایت کے ذریعے اپنی جان پر کھیل کر مسلمانوں کو قرآنی ارشاد: وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدۃ:۲)
کی صحیح تفسیر بتا دی اور باہمی انتشار و افتراق کا دروازہ بند کر دیا۔۔۔۔
اور اسی فتنے کے آخر میں جب کہ حضرت علی اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان میدانِ جنگ گرم تھا۔۔۔۔ روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے موقع پا کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ساتھ ملانے اور ان کی مدد کرنے کا پیغام ملا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھائو۔۔۔۔
اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو علی کے لشکر کا پہلا سپاہی، جو تمہارے مقابلے کے لیے نکلے گا وہ معاویہ ہو گا۔۔۔۔ معلوم یہ ہوا کہ باہمی اختلاف جو منافقین کی گہری سازشوں سے تشدد کا رخ اختیار کر چکا تھا، اس میں بھی اسلام کے بنیادی حقائق کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہوئے۔۔۔۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ماتحت اختلافِ رائے جو صحابہ تابعین اور ائمہ مجتہدین میں رہا ہے تو وہ بلاشبہ رحمت ہی ہے۔۔۔۔ اس کا کوئی پہلو نہ پہلے مسلمانوں کے لیے مضر ثابت ہوا اور نہ آج ہو سکتا ہے۔۔۔۔ بشرط یہ کہ وہ ان ہی حدود کے اند ررہے، جن میں ان حضرات نے رکھا تھا کہ ان کا اثر نماز، جماعت، امامت اور معاشرت کے کسی معاملے پر نہ پڑتا تھا۔۔۔۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more