شیطان بھی اُن سے خوفزدہ ہو کر راستہ بدل لیتاہے (83)۔
قَالَ:اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ. عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ. فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ. فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ. فَقَالَ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ. يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي. فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ”۔
قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَحَقُّ أَنْ يَهَبْنَ. ثُمَّ قَالَ عُمَرُ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ! أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْنَ: نَعَمْ. أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غير فجك”(رواہ مسلم)
حدیث شریف کا مفہومی ترجمہ:۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکراندرآنے کی اجازت طلب کی۔ اُس وقت آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں موجود تھیں جو آپ سے باتیں کر رہی تھیں اور (دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے)زیادہ مطالبات کر رہی تھیں(ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ بھی اپنا سوال پہلے پوچھ لے اسی لئے)انکی آوازیں (اجتماعی طور پر)بلند ہوگئی تھیں۔ جب حضرت عمر نے اجازت طلب کی تو وہ ساری عورتیں پردے کی طرف دوڑ پڑیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کو اندر آنے کی اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔
حضرت عمر نے کہا:۔
۔”یا رسول اللہ! اللہ آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے۔”۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو یہاں بیٹھی تھیں۔ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراًپردے کی طرف دوڑ لگادی
۔حضرت عمر نے کہا: “یا رسول اللہ! آپ اس لائق ہیں کہ ان کومجھ سے زیادہ آپکا خوف ہونا چاہئے۔”۔
۔پھر حضرت عمر نے عورتوں سے کہا: “اے اپنی جان کی دشمن عورتو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی؟”۔
انہوں نے کہا: “ہاں، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اورشدید مزاج کے ہیں۔”۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صحابی کے دفاع میں فوراً)فرمایا: “اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کبھی شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا دیکھتا ہے تو وہ تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جاتا ہے۔”(یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سختی اور شدت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ان کا رعب اور دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ شیطان بھی ان کے سامنے آنے سے ڈرتا اور بھاگ جاتا تھا)۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

