شرعی گنجائش ہونے کے باوجود روزہ رکھنے میں غلو
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ روزہ رکھنے میں افراط کرنے والے بھی پائے جاتے ہیں اور ظاہر میں یہ لوگ دین کے زیادہ قریب ہیں لیکن چونکہ شریعت میں افراط (غلو) بھی پسندیدہ نہیں، اس لئے ان کی حالت کو بھی دین کے موافق نہ کہا جائے گا مثلاً بعض سفر میں، مرض میں جان کو آ جاتے ہیں (یعنی سخت مجبوری اور عذر کی حالت ہوتی ہے) مگر دینداری جتلانے کی وجہ سے یا افطار پر ( یعنی روزہ نہ رکھنے پر) روزہ رکھنے کو راجح سمجھنے کی وجہ سے افطار نہیں کرتے اور یہ سخت غلطی ہے کیونکہ روزہ کو مطلقاً افطار پر ترجیح نہیں ہے بلکہ ایسی سخت حالت میں حکم برعکس ہے ورنہ حديث *ليس من البر الصيام فی السفر* کہ سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں، کے کوئی معنی نہ ہوں گے اور یہ کتنی بڑی غلطی ہے کہ شریعت نے جس کا راجح قرار دیا، یہ شخص اس کو مرجوح سمجھتا ہے، اور جس کو مرجوح قرار دیا ہے اس کو راجح سمجھتا ہے، اور رخصتِ شرعیہ میں اس کا دل تنگ ہے تو گویا اس کو ناقص سمجھتا ہے اور شریعت کی طرف نقص کی نسبت کرنا کتنا برا عقیدہ ہے۔ یہی حکم ان عورتوں کا ہے کہ اس بات کا یقین ہونے کے باوجود کہ روزہ رکھنے سے دودھ پینے والے بچہ کو نقصان ہو گا، اپنی ہٹ دھرمی اور ہکوی (ضد ) سے باز نہیں آتیں بلکہ ان کی حالت پہلے شخص سے بھی زیادہ منکر (خطرناک) ہے کیونکہ اس نے تو صرف اپنا ہی نقصان کیا تھا اور اس نے ایک بے گناہ بچہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ سوکسی کو نقصان پہنچانا پھر وہ بھی بچے کو یہ حقوق العباد کی فرد ہے۔ بچہ کی حق تلفی اور ظلم ہے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

