شادی کے رشتہ کو عمر قید کی سزانہ بنائیں (79)۔
رشتے کا انتخاب ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے لڑکا اور لڑکی کی پوری زندگی کا تعین ہوتاہے۔ لیکن اس مسئلہ کو اتنی سنجیدگی اور سوچ بچار سے نہیں دیکھا جاتا۔ بلکہ کچھ لوگ تو اسکو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ خاص طور پر پاکستان میں جو سب سے قبیح رواج ہےجس کی مذمت ضرور ہونی چاہئے اور جس رواج کی وجہ سے ہنستے بستے خاندان اجڑ گئے۔ وہ مذموم عادت یہ ہے کہ کچھ والدین اپنے رشتہ داروں کی محبت کی وجہ سے رشتہ طے کرلیتے ہیں۔
مثلاً اگر لڑکی کی ماں کو اپنی بہن سے بہت محبت ہے تو اسی خوشی میں وہ اپنی بہن کے بیٹے سے اپنی بیٹی کی شادی طے کروادے گی۔ ایسے حالات میں لڑکی اور لڑکا اکثراوقات دونوں ہی ایک دوسرے سے بیزار ہوتے ہیں۔ لیکن خاندانی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوجاتےہیں۔
اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں اردگردموجود ہیں۔ باپ اپنے بیٹے کو یہ کہتا ہے کہ مجھے اپنے بھائی سے بہت محبت ہے اور اُسکی بیٹی تمہارے لئے بہت ہی اچھی ثابت ہوگی۔ پھر خاندان میں کچھ ایسے اعمال و افعال اور سازشیں کی جاتی ہیں مثلاً افواہیں پھیلا دینا، لڑکی کو اشارے دینا، لڑکے کے سامنے لڑکی کی تعریفیں کرنا اور لڑکے کو یہ احساس دلانا کہ پوری دنیا میں اس سے بہتر رشتہ تمہارے لئے کوئی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ جس سے ایسی فضا پیدا ہوجاتی ہے کہ ان دونوں متاثرہ لڑکے لڑکی کے لئے میاں بیوی بننے کے علاوہ کوئی بھی اختیار باقی نہیں رہتا۔
نتیجتاً وہ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ بغیر رضامندی اور بغیر کسی دلچسپی کے اپنے اوپر مسلط کرلیتےہیں۔ اور پھر جو کچھ اسکے بعد ہوتا ہے وہ آپ سے چھپا ہوا نہیں ہے ۔
ایک صاحب کا واقعہ (جو مجھے ایک دوست نے بتایا)کہ وہ بہت بڑے اکاؤنٹینٹ تھے۔ اور اچھی خاصی آمدن بھی شروع ہوگئی۔ لیکن والدہ کیوںکہ اپنی بہن سے بہت چاہ رکھتی تھی اسلئے اُس نے سوچا کہ بہن کی بیٹی سے بہتر رشتہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اب اس اکاؤنٹینٹ صاحب کو بھی مسئلہ تھا کہ اگر ماں کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں تو زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ بالآخراُنہوں نے زہر کا پیالہ پی لیا۔
کچھ ہی دن بعد یہ حال ہوگیا کہ وہ شخص جو بڑی کمپنیوں میں کام کررہا ہے اور بڑے لوگوں کے ساتھ اسکا اٹھنا بیٹھنا ہے تو اِسکی شادی ایسی لڑکی سے ہوچکی ہے جو انتہائی پھوہڑ، ناسمجھ اور معصوم ہے۔ اُسکو بڑے گھر میں رہنے کے آداب، سنبھالنے کا طریقہ اورخود کو سنوارنے کا شعور چھو کر بھی نہیں گزراتھا۔ صرف ایک ہی خصوصیت کی مالکن تھی کہ خالہ کی بیٹی ہے اور والدہ کی خوشی کا باعث ہے۔
قصہ انتہائی مختصر یہ کہ چند سال میں دو تین بچے بھی ہوگئے اور خاندان والے زبردستی صلح کرواتے رہے۔ اسکے بعد اُن صاحب نے یوں جان چھڑائی کہ دبئی میں جا کر نوکری لگوالی۔ اب وہ تین یا چار سال کے بعد چند دن کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ اور ابھی تک یہی سلسلہ اُنکی زندگی بچانے کا سبب بنا ہوا ہے۔
تو دوستوخدارا! ایساظالمانہ رواج ختم کریں۔اور رشتوں کو جوڑنے میںانتہائی سوچ بچار کرکے فیصلہ کریں ۔ یہ ایسا رشتہ ہے جو اگر بغیر رضامندی کے طے ہوجائے تو عمر قید کے مترادف بن جاتا ہے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

