سو کر اٹھنے کی د عا

سو کر اٹھنے کی د عا

جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب صبح کے وقت بیدار ہوتے تو یہ کلمات فرماتے:۔
اَلْحَمْدُللّٰہِ الَّذِیْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر
تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندگی عطا فرمائی اور اسی کی طرف زندہ ہوکر جانا ہے۔ اس دعا میں ایک طرف تو اس بات پر شکر ادا ہورہا ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی مل گئی، کیونکہ ہوسکتا تھا کہ میں سوتے سوتے مرجاتا جیسے بہت سے لوگ سوتے سوتے مرجاتے ہیں، لیکن اے اﷲ! آپ نے مرنے کے بعد مجھے دوبارہ زندگی عطا فرمائی۔ دوسری طرف اس دعا میں اس بات کا استحضار ہورہا ہے کہ یہ زندگی جو مل گئی ہے، یہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہے بلکہ ایک وقت مجھے ضرور اﷲ تعالیٰ کے پاس جانا ہے۔

صبح کی دعا

وہ اﷲ کا بندہ جس نے صبح سب سے پہلے اٹھتے ہی اﷲ تعالیٰ سے رابطہ قائم کرلیا اور پھر اس کے بعد بھی جو کام کررہا ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے نام پر کررہا ہے، جب صبح ہورہی ہے تو یہ دعا کررہا ہے:۔
اَللّٰہُمَّ بِکَ اَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیٰ وَبِکَ نَمُوْتُ وَاِلَیْکَ النُّشُوْرُ
اے اﷲ! یہ جو صبح ہورہی ہے یہ آپ کی بدولت ہورہی ہے، اگر آپ کی رحمت نہ ہوتی تو یہ صبح کہاں سے آتی۔ ذرا غور کریں کہ ان الفاظ میں کیا کیا معانی پوشیدہ ہیں، ایک یہ کہ سوتے سوتے ہمارا انتقال نہیں ہوا، ہم مرے نہیں، کتنے لوگ ہیں جو سوتے سوتے مرجاتے ہیں۔

دن کی روشنی اﷲ تعالیٰ کی نعمت

دوسرے یہ کہ جو صبح ہوئی، کیا ہمارے بس میں تھا کہ اسے صبح کو لے آتے، اگر رات کا اندھیرا چھایا ہوا ہوتا اور چھایا ہی رہتا تو کیا ہمارے بس میں تھا کہ ہم روشنی نکال لاتے؟

شام کی دعا

پھر جب شام ہوجائے تو یہ دعا پڑھو:۔
اَللّٰہُمَّ بِکَ اَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیٰ وَبِکَ نَمُوْتُ
یا اﷲ! یہ جو شام ہوئی ، یہ بھی آپ کی بدولت ہوئی اور جو صبح ہوئی تھی وہ بھی آپ کی بدولت ہوئی تھی، ہم آپ کی بدولت زندہ ہیں اور آپ کی بدولت مرتے ہیں، آخر میں آپ کی طرف ہمارا ٹھکانہ ہوگا۔

بیت الخلاء میں جانے کی دعا

بیدار ہونے کے بعد عام طور پر انسان کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے بیت الخلاء جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دعا تلقین فرمائی ہے کہ جب آدمی قضاء حاجت کے لئے بیت الخلاء میں جانے لگے تو داخل ہونے سے پہلے یہ دعا پڑھے:۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ (بخاری)
اے اﷲ! میں خبیث مذکر مخلوقات سے اور خبیث مؤنث مخلوقات سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
دین اسلام کا یہ امتیاز ہے کہ ان مواقع پر جہاں پر انسان ذکر کرتے ہوئے شرماتا ہے، وہاں کے لئے بھی حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی نہ کوئی دعا اور کوئی نہ کوئی ذکر تلقین فرمایا ہے، تاکہ اس موقع پر بھی انسان کا رابطہ اﷲ جل شانہ کے ساتھ قائم رہے۔

بیت الخلاء سے نکلتے وقت کی دعا

پھر انسان جب فارغ ہوکر بیت الخلاء سے باہر نکلے تو اس وقت کے لئے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری دعا تلقین فرمائی اور دوسرا ادب بیان فرمایا۔ وہ یہ کہ جب باہر نکلنے لگو تو پہلے دایاں پائوں باہر نکالو اور پھر یہ دعا پڑھو:۔
غُفْرَانَکَ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْہَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِیْ (ابن ماجۃ)
۔’’غفرانک‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اے اﷲ! میں آپ سے مغفرت اور بخشش مانگتاہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ کس چیز سے مغفرت مانگتا ہوں؟ اس لئے کہ اس موقع پر بظاہر کسی گناہ کا ارتکاب تو نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس موقع پر دوباتوں سے مغفرت مانگتاہوں۔ ایک اس بات سے کہ اس وقت میں جس حالت میں تھا ہوسکتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلط عمل سرزد ہوگیا ہو، اس سے مغفرت مانگتا ہوں۔

نماز فجر کیلئے جاتے وقت راستہ کی دعا

فجر کی نماز کے لئے جب مسلمان بیدار ہو گا اور وضو کرے گا اور وضو کے بعد وہ نماز فجر باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد کی طرف جائے گا تو فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے راستے میں جو دعا پڑھنا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے‘ وہ یہ ہے:۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِی بَصَرِی نُوْرًا وَّفِی سَمْعِیْ نُوْرًا وَعَنْ یَمِیْنِی نُوْرًا وَعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَفَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّاَمَامِیْ نُوْرًا وَخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا وَّاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّ اعْطِنِیْ نُوْرًا ( صحیح مسلم)
اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما دیجئے‘ دیکھئے! فجر کا وقت ہے اور آدمی نماز فجر کیلئے جا رہا ہے‘ اس وقت میں رات کی تاریکی ہوتی ہے اور دن کی روشنی آ رہی ہوتی ہے‘ دن کی روشنی کی آمد کے وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! یہ ظاہری روشنی تو آپ پھیلا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں بھی نور عطاء فرمائیے‘ میری آنکھوں میں نور عطا فرمائیے‘ میرے کانوں میں نور عطاء فرمائیے‘ میرے دائیں طرف نور ہو‘ میرے بائیں طرف نور ہو‘ میرے اوپر نور ہو‘ میرے نیچے نور ہو‘ میرے آگے نور ہو‘ میرے پیچھے نور ہو‘ اے اللہ! میرے لئے نور مقرر فرما دیجئے‘ اے اللہ! میرے نور کو بڑا کر دیجئے‘ اے اللہ! مجھے نور عطا فرمائیے‘ ایک روایت میں اس لفظ کا اضافہ ہے کہ:
وَاجْعَلْنِی نُوْرًا
اے اللہ! مجھے سراپا نور بنا دیجئے فجر کی نماز کے لئے جاتے وقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعائیں

اسکے بعد انسان مسجد میں نماز کیلئے داخل ہوتا ہے‘ مسجد میں داخل ہوتے وقت جو دعا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے‘ وہ یہ ہے: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِی اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ
بعض روایتوں میں دعا سے پہلے بسم اللہ اور درود شریف کے اضافہ کے ساتھ اس طرح یہ دعا منقول ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ انسان مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے اللہ کا نام لے اور ’’بسم اللہ‘‘ کہے ‘ تاکہ اس کے ذریعہ اس بات کا اقرار ہو جائے کہ میرا مسجد میں آنا اللہ جل شانہ کی توفیق سے ہے‘ اس لئے میں اللہ کا نام لے کر اس کی نعمت کا اعتراف کر کے اور اس کی توفیق کا سہارا لے کر مسجد میں داخل ہو رہا ہوں۔

دعا کے ساتھ درود شریف پڑھیں

۔’’بسم اللہ‘‘ پڑھنے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھے اور یہ کہے:۔
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ
کیونکہ جس نیکی کے کرنے کی توفیق ہو رہی ہے‘ وہ درحقیقت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین کا صدقہ ہے‘ اگر آپ کی تعلیمات نہ ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی نہ ہوتی تو کسی انسان کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ جائے۔

سورج نکلتے وقت کی دعا

مسجد میں بیٹھنے کے دوران جس وقت سورج طلوع ہو تو اس وقت وہ کلمات ادا کرے جو کلمات حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سورج نکلتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ وہ یہ ہیں:۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَقَالَنَا یَوْمَنَا ہٰذَا وَلَمْ یُہْلِکْنَا بِذُنُوْبِنَا۔
تمام تعریف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں ہمارا یہ دن واپس کردیا اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہمیں ہلاک اور برباد نہیں کیا۔
بِاِسْمِکَ رَبِّیْ وَضَعْتُ جَنْبِیْ وَبِکَ اَرْفَعُہُ اِنْ اَمْسَکْتَ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلَہَا وَاِنْ اَرَسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِیْنَ
یعنی اے میرے پروردگار! میں نے آپ ہی کے نام سے بستر پر اپنا پہلو رکھا ہے اور آپ ہی کے نام سے اٹھائوں گا، اگر آپ میری روح کو روک لیں، یعنی سوتے ہوئے میری روح کو قبض کرلیں تو اس کی مغفرت فرمادیجئے گا اور اگر آپ اس روح کو چھوڑ دیں یعنی زندگی کی حالت میں صبح کو بیدار کردیں تو اس کی حفاظت فرمایئے گا جس طرح آپ اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یعنی میری روح کا واپس آنا اسی وقت فائدہ مند ہے جب آپ کی حفاظت اس کے ساتھ لگی ہوئی ہو، وہ گناہوں میں مبتلا نہ ہو، وہ بداعمالیوں میں مبتلا نہ ہو، وہ جہنم کا شکار نہ ہو اور شیطان کے جال میں نہ پھنسے۔ کون ایسی دعائیں مانگے گاجو دعائیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مانگ کر تشریف لے گئے۔ بہرحال! یہ دعا کرکے آپ سویا کرتے تھے۔

بازار جاتے وقت یہ دعا پڑھ لیں

ہاں! جب ضرورت کی وجہ سے بازار گئے تو اس موقع کے لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم بازار تشریف لے جاتے تویہ ذکر فرماتے:۔
لاَ اَلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ‘ لاَشَرِیْکَ لَہ‘ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیٖی وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ
یعنی اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا معبودہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں اسی کی ہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

خریدوفروخت کے وقت کی دعا

پھرجب بازار میں پہنچ گئے اور وہاںکچھ خریداری کرنی ہے یا سامان فروخت کرنا ہے تو اس موقع پر حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ صَفْقَۃٍ خَاسِرَۃٍ وَیَمِیْنٍ فَاجِرَۃٍ
اے اﷲ! میں کسی گھاٹے کے سودے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور جھوٹی قسم سے پناہ مانگتا ہوں۔
جب انسان سودا کرتا ہے تو بعض اوقات فائدہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات نقصان ہوجاتا ہے اور بعض اوقات جھوٹی قسم کھانی پڑجاتی ہے۔ اس لئے دعا کرلی کہ اے اﷲ! میں آپ سے گھاٹے کے سودے سے پناہ مانگتا ہوں اور جھوٹی قسم سے پناہ مانگتا ہوں، تاکہ گھاٹے کا سودا بھی نہ ہو اور کہیں جھوٹی قسم کھانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔

گھر میں داخل ہونے کی دعا

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسَئَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرََ الْمَخْرَجِ بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا۔

داخلے کی بھلائی مانگتا ہوں

یہ مختصر سی دعا ہے لیکن ا س دعا میں معنیٰ کی ایک کائنات پوشیدہ ہے اس دعا میں کیا کیا چیزیں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگ لیں۔ اس دعا کے پہلے جملے کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اﷲ! میں آپ سے اپنے داخلے کی بھلائی مانگتا ہوں،یعنی داخلے کے بعد مجھے اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے، کیونکہ میں کچھ دیر تک گھر سے باہر رہا، مجھے نہیں معلوم کہ میرے پیچھے گھر میں کیا واقعات پیش آئے، اے اﷲٗ اب جب کہ میں گھر میں داخل ہورہا ہوں تو وہاں پر میں اطمینان کا، مسرت کا اور بھلائی کا منظر دیکھوں اور عافیت کا منظر دیکھوں۔

نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں

دوسراجملہ یہ ارشاد فرمایا: وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ
یعنی اے اﷲ! میں آپ سے گھر سے نکلنے کی بھلائی مانگتا ہوں کہ میرا گھر سے نکلنا بھی بہتر ہو۔ مطلب یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کے بعد میں کافی دیر تک گھر میں رہوں گا، لیکن ہمیشہ تو گھر میں رہنا نہیں ہوگا بلکہ کسی موقع پر دوبارہ گھر سے نکلنا ہوگا، لہٰذا جب دوبارہ نکلوں تو اس نکلنے کے وقت بھی میرے لئے خیر مقدر فرمادیجئے اور اس وقت بھی بھلائی ہی بھلائی ہو اور عافیت ہی عافیت ہو۔ آگے یہ جملہ ارشاد فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا ہم اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر داخل ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اے اﷲ! میں نے دعا تو مانگ لی کہ میرے حالات درست ہوں لیکن حالات کو میں خود سے درست کرنے پر قادر نہیں ہوں، میرے بس میں یہ بات نہیں ہے کہ گھر میں جاکر جو منظر دیکھوں، وہ میرے اطمینان اور مسرت کا ہو، جب تک آپ کی مشیت اور فیصلہ شامل حال نہیں ہوگا اس وقت تک یہ بات نہیں ہوسکتی۔ اس لئے میں آپ کا نام لے کر داخل ہوتا ہوں۔

اﷲ تعالیٰ کے نام سے نکلتے ہیں

آگے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا۔
اور اﷲ ہی کا نام لے کر ہم نکلتے ہیں۔ جب داخل ہوں تو اﷲ کا نام لے کر داخل ہوں اورجس وقت گھر سے باہر نکلیں تو اس وقت بھی اﷲ کا نام لے کر نکلیں، اس دعا کے ذریعہ ہم اﷲ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اﷲ! ہمارا داخلہ اور خارجہ دونوں درست فرمادیں۔

اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہیں

آخر میں یہ جملہ ارشاد فرمایا: وَعَلیَ اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا۔
اور اﷲ ہی پر جو ہمارا پروردگار ہے، ہم بھروسہ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اے اﷲ! ہم نے دعا تو کرلی اور آپ سے مانگ لیا کہ خیر ہی خیر ہو، کوئی شر پیش نہ آئے، لیکن اگر بالفرض اس دعا کے مانگنے کے بعد کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جو بظاہر دیکھنے میں خیر نہیں لگ رہا ہے تو اے اﷲ! ہم آپ پر بھروسہ کرتے ہیں کہ آپ نے جو فیصلہ فرمایا وہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

کھانا سامنے آنے پر دعا

الحمد ﷲ الذی رزقنیہ من غیر حول منی ولا قوۃ۔
اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کی ہیں جس نے مجھے میری قدرت اور طاقت کے بغیر یہ رزق عطا فرمایا۔ اس دعا کے اندر اس بات کا اعتراف ہے کہ میرے اندر نہ قدرت تھی اور نہ طاقت تھی کہ میں یہ رزق اپنے لئے مہیا کرسکتا، بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میری طاقت اور قدرت کے بغیر یہ رزق مجھے عطا فرمایا۔ لہٰذا سنت یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے کوئی کھانے کی چیز آئے تو وہ یہ کلمات کہے۔

کھانا شروع کرنے سے پہلے کی دُعا

جب آپ کھانا شروع فرماتے تو اس وقت آپ یہ دعا پڑھتے۔
بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلیٰ بَرَکَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ

بسم اﷲ پڑھنے کا فلسفہ

یہ وہی ’’بسم اﷲ‘‘ ہے جس کا فلسفہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کا نام لینا یہ درحقیقت بندے کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ اے اﷲ! یہ جو کچھ میں کھانا شروع کرنے والا ہوں، یہ سب آپ کی عطا ہے اور آپ کا انعام و احسان ہے اور اب میں آپ ہی کے نام سے اس کو کھانا شروع کرتا ہوں۔

۔’’بسم اﷲ‘‘ بھول جانے پر درمیان طعام کی دعا

حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کھانے کے شروع میں ’’بسم اﷲ‘‘۔ پڑھنا بھول جائے تو کھانے کے دوران جس وقت یاد آجائے اس وقت یہ دعا کرلے کہ:۔
بِسْمِ اللّٰہِ اَوَّلَہ‘ وَآخِرَہ‘
یعنی میں اﷲ کے نام کے ساتھ کھا رہا ہوں، اول میں بھی اﷲ کا نام اور آخر میں بھی اﷲ کا نام۔

کھانے کے بعد کی دعا

جب کھانے سے فارغ ہوگئے تو اس موقع کیلئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ یہ کہو:۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَاَوَانَا وَاَرْوَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
یعنی تمام تعریفیں اس اﷲ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا۔ دیکھئے! جس وقت کھانا سامنے آیا تھا، اس وقت یہ دعا کی تھی کہ شکر ہے اس اﷲ کا جس نے ہمیں یہ رزق دیا، اور یہاں یہ دعا کی جارہی ہے کہ شکر ہے اس اﷲ کا جس نے ہمیں کھلایا،۔

سواری پر بیٹھنے کی دعا

اس کے بعد جب سواری پر بیٹھے تو یہ دعا پڑھے: سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ (سورۃ الزخرف، آیات ۱۳۔۱۴)
قرآن کریم میں اس دعا کا ذکر گھوڑوں اور اونٹوں کی سواری کے سیاق میں آیا ہے کہ جب گھوڑوں اور اونٹوں پر سواری کروتو یہ دعا پڑھو۔ اب چونکہ گھوڑوں اور اونٹوں کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ اﷲ تعالیٰ نے دوسری سواریاں پیدا فرمادی ہیں، اس لئے جب ان سواریوں پر سوار ہوں تو اس وقت یہ دعا پڑھیں۔

نئی بستی سے گزرتے وقت کی دعا

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب آپ سفر کے دوران کسی نئی بستی سے گزرتے تو اس موقع پر یہ دعا فرماتے:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَ ھَذِہِ الْقَرْیَۃِ وَخَیْرَ اَہْلِہَا وَخَیْرَ مَافِیْہَا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ اَہْلِہَا وَشَرِّ مَا فِیْہَا۔
اے اللہ! جس بستی سے میں گزر رہا ہوں‘ اس بستی کی بھلائیاں عطاء فرمائیے اور اس بستی کے جو اچھے لوگ ہوں‘ ان سے واسطہ ڈالئے اور اس بستی میں جتنی اچھائیاں ہیں‘ ان سے میرا واسطہ پڑے۔ اور اے اللہ! میں اس بستی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اس بستی کے بُرے رہنے والوں سے اور اس بستی میں جو برائیاں ہیں‘ ان سے پناہ مانگتا ہوں‘ ان سے مجھے بچائیے گا۔
یہ دعا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پڑھتے جب کسی نئی بستی سے گزرتے‘ چاہے وہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔

کسی بستی میں داخل ہوتے وقت کی دعا

اور اگر کسی بستی میں ٹھہرنے کا ارادہ ہوتا تو اس بستی میں داخل ہونے سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے: اَللّٰھُمَّ حَبِّبْنَا اِلٰی اَہْلِہَا وَحَبِّبْ صَالِحِی اَھْلِہَا اِلَیْنَا۔
اے اللہ! ہمیں ان بستی والوں کی نظر میں محبوب بنا دیجئے‘ یعنی ایسا بنا دیجئے کہ یہ ہم سے محبت کریں اور اس بستی کے جو نیک لوگ ہیں ان کی محبت ہمارے دل میں پیدا کر دیجئے۔

قربانی کے وقت یہ دُعا پڑھیں

روایت میں آتا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب قربانی کی عبادت انجام دیتے تو یہ دعا فرماتے:۔
اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اللھم منک ولک
قربانی کے وقت جو کلمات آپ نے ارشاد فرمائے‘ ان میں بڑا عظیم سبق ہے‘ ان کلمات کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’میری نماز اور میری قربانی و عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ کیلئے ہے جو رب العالمین ہے‘ اے اللہ! یہ قربانی جو میں آپ کی بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں‘ یہ جانور بھی آپ ہی نے مجھے عطاء فرمایا تھا اور اس جانور کو آپ ہی کی بارگاہ میں مجھے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ ان کلمات کے ذریعہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ کوئی بھی عبادت ہو‘ چاہے وہ نماز ہو‘ چاہے وہ روزہ ہو‘ چاہے وہ صدقہ و خیرات ہو‘ چاہے وہ حج ہو‘ چاہے وہ قربانی ہو‘ جب تک اس عبادت سے مقصود اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا نہیں ہے‘ اس وقت تک اس عبادت کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

تکلیف کے وقت کی دعا

مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مؤمن کو یہ تلقین فرمائی کہ جب کبھی تمہیں کوئی تکلیف کی بات پیش آئے تو یہ کلمات پڑھو:
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اور اس کے بعد یہ دعاپڑھو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَحْتَسِبُ لَکَ فِی مُصِیْبَتِی وَاَجِرْنِیْ فِیْہَا وَاَبْدِلْنِیْ خَیْرًا مِنْہَا
ہمارے حضرت ڈاکٹر عبدالحی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تکلیف پہنچنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بڑی مصیبت آ جائے بلکہ اگر چھوٹی سی تکلیف پہنچے تو بھی یہی حکم ہے‘ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب چراغ گل ہو گیا تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔

سوتے وقت کی دُعا

رات کو سوتے وقت بستر پر داہنی کروٹ پر لیٹو تو اس وقت یہ دعا پڑھو:۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ وَوَجَّہْتُ وَجْہِیْ اِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِی اِلَیْکَ وَاَلْجَأْتُ ظَہْرِی اِلَیْکَ لاَ مَلْجَا وَلاَ مَنْجَأ مِنْکَ اِلاَّ اِلَیْکَ اَللّٰھُمَّ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی اَنْزَلْتَ وَبِنَبِیِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ۔
اے اللہ! میں نے اپنی جان آپ کے حوالے کر دی اور میں نے اپنا چہرہ آپ کی طرف کر دیا اور میں نے اپنے سارے معاملات آپ کے سپرد کر دیئے۔

اگر نیند نہ آئے تو یہ پڑھے

اگر آدمی سونے کیلئے بستر پر لیٹ گیا اور اس کو نیند نہیں آ رہی ہے تو اس موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی:۔
اللھم غارت النجوم وھدأت العیون وانت حی قیوم‘ لا تاخذک سنۃ ولا نوم۔ یاحی یا قیوم‘ اھدی لیلی وانم عینی۔
یا اللہ! ستارے چھپ گئے اور آنکھیں پرسکون ہو گئیں‘ آپ حی وقیوم ہیں۔ آپ کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند‘ اے حی و قیوم میری رات کو پرسکون بنا دیجئے اور میری آنکھ کو نیند عطاء فرما دیجئے۔
یہ کلمات پڑھ لو گے تو ان کلمات کی برکت سے اللہ تعالیٰ شیاطین کے شر سے محفوظ فرمائیں گے۔

ان تسبیحات کا معمول بنالو

پھر ہمارے بزرگوں نے یہ بھی فرما دیا کہ چوبیس گھنٹوں میں سے تھوڑا وقت ایسا مخصوص کرلو جس میں ذکر ہی مقصود ہو اور بہتر یہ ہے کہ فجر سے پہلے کا وقت یا فجر کے بعد کا متصل وقت اس کیلئے مخصوص کرلو لیکن اگر اس وقت عذر ہو تو دوسرے اوقات میں کوئی ذکر کیلئے مختص کرلو اور اس وقت میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کا ذکر کرو‘ تلاو ت کرو‘ تسبیحات پڑھو۔ مثلاً سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ایک تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُکی ایک تسبیح اور استغفار کی ایک تسبیح‘ درود شریف کی ایک تسبیح اور لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کی ایک تسبیح اور لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ‘ لَاشَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیْرٌ کی ایک تسبیح۔ ان اذکار کے پڑھنے کا اہتمام کرو ان سب اذکار کی ایک ایک تسبیح پڑھنے کا معمول بنالو۔ اگر زیادہ وقت نہیں تو ایک تہائی تسبیح کا معمول بنا لو اور ۳۳‘ ۳۳ مرتبہ تمام اذکار پڑھ لیا کرو۔ لیکن جب ذکر کیلئے وقت مقرر کرلو تو پھر اس وقت کو اسی کام میں صرف کرو اور پہلے یہ دیکھو کہ میں چوبیس گھنٹے میں سے کتنا وقت اس کام کیلئے نکال سکتا ہوں‘ پھر اس کے حساب سے معمولات مقرر کرلو‘ چاہے آدھا گھنٹہ ہو یا پندرہ منٹ ہوں‘ یا دس منٹ ہوں لیکن پھر اس کی پابندی کرو اور اس وقت کے اعتبار سے اذکار کی تعداد میں کمی کرلو‘ اگر اس وقت میں سو کی تعداد پوری نہیں ہوتی تو ۶۶ کی تعداد مقرر کرلو ‘ ۶۶ کی تعداد پوری نہیں ہوتی تو ۳۳ کی تعداد مقرر کرلو‘ ۳۳ کی تعداد پوری نہیں ہوتی تو ۱۱ کی تعداد مقرر کرلو۔

سَیِّدُالْاِسْتَغْفَار

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ ‘ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْئُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہٗ لَا یَغْفُرُالذُّنوْبَ اِلَّااَنْتَ۔
یا اللہ !آپ میرے پروردگار ہیں ‘ آپ کے سوا کوئی معبود نہیں آپ نے مجھے پیدا کیا۔ میں آپ کا بندہ ہوں اور میں حتی الوسع آپ سے کئے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں ‘ میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے آپ کی پناہ مانگنا ہوں آپ نے جو نعمتیں مجھ کو عطا فرمائیں ‘ میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں ‘ لہٰذا میرے گناہ معاف فرما دیجئے کیونکہ آپ کے سوا کوئی گناہوں کی مغفرت نہیں کرتا۔
حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ کلمات پورے یقین کے ساتھ صبح کے وقت کہے اور شام سے پہلے اس کا انتقال ہو جائے تو وہ جنتیوں میں شمار ہو گا اور جو شخص یہ کلمات رات کے وقت پورے یقین کے ساتھ کہے اور صبح سے پہلے مر جائے تو وہ اہل جنت میں سے ہے۔ (صحیح بخاری ‘ باب افضل الاستغفار)
ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو لوگ کسی مجلس سے اس حالت میں اٹھ جائیں کہ اس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا ہو تو وہ مردار گدھے پر سے اٹھے ‘ اور یہ مجلس ان کے لئے (قیامت کے دن)حسرت کا باعث بنے گی ( یعنی یہ حسرت ہو گی کہ اتنا وقت ہم نے بیکار ضائع کردیا۔) (ابودائود)
اسی لئے حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر مجلس کے آڑ میں یہ کلمات پڑھ لینے چاہئیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَآ اِلٰہ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ
اس سے اس مجلس کی کوتاہیوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (نسائی)

دُعا کی قبولیت کے لئے مجرب عمل

مشائخ و علماء نے حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ پڑھنے کے فوائد میں لکھا ہے کہ اس آیت کو ایک ہزار مرتبہ جذبۂ ایمان و انقیاد کے ساتھ پڑھا جائے اور دُعا مانگی جائے تو اﷲ تعالیٰ رد نہیں فرماتے ہجوم افکار و مصائب کے وقت حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ کا پڑھنا مجرب ہے۔۔۔ (معارف القرآن جلد ۲ صفحہ ۲۴۴)

اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنیکی ایک خاص دُعا

۔’’سُبْحَانَ الْاَبْدِیِّ الْاَبَدِ‘‘ (پاکی ہے اس ذات کیلئے جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے)
۔’’سُبْحَانَ الْوَاحِدِ الْاَحَدِ‘‘ (پاکی ہے اس ذات کے لیے جو ایک اور یکتا ہے)
۔’’سُبْحَانَ الْفَرْدِ الصَّمَدِ‘‘ (پاکی ہے اس ذات کے لیے جو تنہا اور بے نیاز ہے)
’’سُبْحَانَ رَافِعِ السَّمَآئِ بِغَیْرِ عَمَدٍ‘‘
(پاکی ہے اس ذات کے لیے جو آسمان کو بغیر ستون کے بلند کرنے والا ہے)
’’سُبْحَانَ مَنْ بَسَطَ الْاَرْضَ عَلٰی مَائٍ جَمَدٍ‘‘
(پاکی ہے اس ذات کے لیے جس نے بچھایا زمین کو برف کی طرح جمے ہوئے پانی پر)
’’سُبْحَانَ مَنْ خَلَقَ الْخَلْقَ فَاَحْصَاھُمْ عَدَدًا‘‘
(پاکی ہے اس ذات پاک کے لیے جس نے پیدا کیا مخلوق کو پس ضبط کیا اور خوب جان لیا ان کو گن کر)
’’سُبْحَانَ مَنْ قَسَّمَ الرِّزْقَ فَلَمْ یَنْسَ اَحَدًا‘‘
(پاکی ہے اس ذات پاک کیلئے جس نے روزی تقسیم فرمائی اور کبھی کسی کو نہ بھولا)
’’سُبْحَانَ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَّلاَ وَلَدًا‘‘
(پاکی ہے اس ذات پاک کے لیے جس نے نہ بیوی اپنائی نہ بچے )
’’سُبْحَانَ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَد‘‘
(پاکی ہے اس ذات پاک کے لیے جس نے نہ کسی کو جنا۔۔۔ نہ وہ جنا گیا اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی)
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے مندرجہ بالا دُعا کا اہتمام کیجئے۔۔۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کو سو (۱۰۰) مرتبہ خواب میں دیکھا جب سوویں مرتبہ خواب میں دیکھا تو انہوں نے اللہ سے پوچھا کہ یا اللہ! تیرے بندے تیرا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا پڑھیں تو یہ دُعا اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتلائی۔۔۔ (شامی جلد ۱ صفحہ۱۴۴۔۔۔ فتاویٰ رحیمیہ جلد ۷ صفحہ ۱۰۶۔۔۔۱۰۷)

ایک دُعا جو سات ہزار مرتبہ تسبیح پڑھنے سے بہتر ہے

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ فجر کی نماز کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شریف میں علمی مذاکرہ ہوتا تھا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرمایا کرتے تھے مگر معاذ رضی اللہ عنہ ابتداء میں جماعت کا سلام پھیر کر گھر تشریف لے جاتے تھے۔۔۔
ایک مرتبہ فرمایا: اے معاذ! صبح کو ہماری مجلس میں نہیں آتے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر معذرت فرمادی کہ صبح میرا سات ہزار تسبیح پڑھنے کا معمول ہے۔۔۔ اگر کہیں بیٹھ جاتا ہوں تو پھر میرا وہ معمول پورا نہیں ہو پاتا۔۔۔
فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی دُعا نہ بتلا دوں جس کا ایک مرتبہ پڑھ لینا سات ہزار مرتبہ سے بہتر ہو؟ عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں؟ ارشاد فرمایا:۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ عَدَدَ رِضَاہُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ زِنَۃَ عَرْشِہٖ
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ عَدَدَ خَلْقِہٖ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مِلْأَ سَمَاوَاتِہٖ
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مِلْأَ اَرْضِہٖ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مِلْأَ مَا بَیْنَھُمَا
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مِثْلَ ذٰلِکَ مَعَہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ مَعَہٗ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ مِثْل ذٰلِکَ مَعَہٗ
اس دُعا کا ایک دفعہ پڑھ لینا ایسا ہے جیسے سات ہزار تسبیح پڑھ لی ہوں۔

درج ذیل کلمات پڑھنے کے بعد جو دُعا مانگی جائے قبول ہوگی

حدیث شریف میں ہے کہ مندرجہ ذیل کلمات پڑھنے کے بعد جو دُعا مانگی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔۔۔
۔’’لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرْ۔۔۔
لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَـہٗ۔۔۔
لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔۔۔
لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ‘‘ (طبرانی )
اذان اور تکبیر کے درمیانی وقفے میں۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ کی دُعا رد نہیں کی جاتی‘‘۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے دریافت کیا۔۔۔
یا رسول اللہ! اس وقفے میں کیا دُعا مانگا کریں۔۔۔ فرمایا :یہ دُعا مانگا کرو:۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘
ترجمہ:…’’خدایا! میں تجھ سے عفو و کرم اور عافیت و سلامتی مانگتا ہوں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔۔۔

ایک جامع دعا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نہایت ہی جامع دُعا حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَّ یَخْشَعْ وَمِنْ نَفْسٍ لاَّ تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمِ لاَّ یَنْفَعْ۔۔۔ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لاَّ یُسْتَجَابُ لَھَا‘‘۔۔۔
ترجمہ: …’’خدایا! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس دل سے جس میں خشوع نہ ہو۔۔۔ اس نفس سے جس میں صبر نہ ہو۔۔۔ اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دُعا سے جو قبول نہ ہو‘‘۔۔۔

چند جامع دُعائیں

(سورۂ بقرہ: آیت۲۰۱) ’’رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo‘‘
ترجمہ:…’’اے ہمارے رب! ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجئے! اور آخرت میں بہتری دیجئے! اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچایئے!‘‘۔
(سورۂ فرقان: آیت۷۴) ’’رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًاo‘‘
ترجمہ:…’’اے ہمارے رب! ہم کو ہماری عورتوں (یا ہمارے شوہروں) اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے‘‘۔
۔’’رَبَّنَا اِنَّنَا اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ (سورۂ آل عمران: آیت۱۶)
ترجمہ:…’’اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے۔۔۔ سو آپ ہمارے گناہوں کو معاف کردیجئے! اور ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچالیجئے!‘‘۔
۔’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ (سورۂ فاتحہ: آیت۵)
ترجمہ:…’’بتا ہم کو سیدھی راہ‘‘۔۔۔
۔’’وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ (سورۂ بقرہ کی آخری آیت)
ترجمہ:…’’اور درگزر کیجئے ہم سے! اور بخش دیجئے ہم کو! اور رحم کیجئے ہم پر! آپ ہمارے کارساز ہیں۔۔۔ سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئے‘‘۔۔۔
۔’’رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَo وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ‘‘ (سورۂ یونس: آیت۸۵۔۔۔۸۶)
ترجمہ:…’’اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کا تختہ مشق نہ بنا اور ہم کو مہربانی فرما کر ان کافروں سے نجات دے!‘‘۔
۔’’رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ‘‘ (سورۂ ابراہیم: آیت۴۱)
ترجمہ: …’’اے ہمارے رب! میری مغفرت کردیجئے! اور میرے ماں باپ کی اور تمام مؤمنین کی بھی۔۔۔ حساب قائم ہونے کے دن‘‘۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَالُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی‘‘ (رواہ مسلم۔۔۔ مشکوٰۃ: ص۲۱۸)
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں آپ سے ہدایت۔۔۔ پرہیزگاری۔۔۔ پاکدامنی اور بے نیازی طلب کرتا ہوں‘‘۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔۔۔ مشکوٰۃ: ص۲۱۹)
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں آپ سے بخشش اور عافیت طلب کرتا ہوں دنیا اور آخرت میں‘‘۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلْقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ‘‘ (رواہ البیہقی۔۔۔ فی الدعوات الکبیر۔۔۔ مشکوٰۃ: ص۲۲۰)
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں آپ سے صحت و تندرستی اور پاک دامنی و پارسائی امانت اور اچھی سیرت اور تقدیر پر راضی رہنے کی درخواست کرتا ہوں‘‘۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِّیَائِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ‘‘ (حوالہ بالا)
ترجمہ:…’’یاالٰہی! پاک کردے میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریا کاری سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری نگاہ کو خیانت سے۔۔۔ آپ خوب جانتے ہیں۔۔۔ آنکھوں کی خیانت کو اور ان باتوں کو جن کو دل چھپاتے ہیں‘‘۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَعَمَلاً مُّتَقَبَّلاً وَرِزْقًا طَیِّبًا‘‘ (حوالہ بالا)
ترجمہ:…’’یاالٰہی! میں آپ سے نفع بخش علم۔۔۔ مقبول علم اور پاکیزہ روزی مانگتا ہوں‘‘۔
’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْزُقْنِیْ‘‘
(رواہ مسلم۔۔۔ مشکوٰۃ: ص۲۱۸)
ترجمہ:…’’یاالٰہی! میری مغفرت فرما! اور مجھ پر رحم فرما! اور مجھے ہدایت نصیب فرما! اور مجھے عافیت عطا فرما اور مجھے روزی عطا فرما‘‘۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ (مشکوٰۃ: ص۱۸۲)
ترجمہ:…’’یاالٰہی! آپ معاف کرنے والے ہیں۔۔۔ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں۔۔۔ پس میری خطائیں معاف فرما!‘‘۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ‘‘ (رواہ مسلم۔۔۔ مشکوٰۃ: )
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں دوزخ کے عذاب سے اور میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں قبر کے عذاب سے اور میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں کانے دجال کے فتنے سے اور میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے‘‘۔۔۔
’’رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘
(رواہ احمد و ابو دائود۔۔۔ والنسائی مشکوٰۃ: ص۸۸)
ترجمہ:…’’اے میرے رب! میری مدد فرما۔۔۔ تیرا ذکر کرنے۔۔۔ تیرا شکر کرنے اور تیری اچھی عبادت کرنے پر‘‘۔۔۔
(سورۂ طہ: آیت۱۱۴) ’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًاo‘‘
ترجمہ:’’اے میرے رب! میرے علم و فہم میں اضافہ فرما‘‘۔۔۔

بچوں کی نظر بد سے حفاظت

اے اللہ میں ہر شیطان۔۔۔ بری چیز اور نظر بد سے تیرے تمام کلمات کی پناہ مانگتا ہوں ’’ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اﷲِ التَّامَّۃِ۔۔۔ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَشَرٍّ وَھَآمَّۃٍ وَمِن کُلِّ عَینٍ لآمَّۃٍ ‘‘۔

نجات کی دُعا

’’تَوَکَّلْتُ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَمُوْتُ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا‘‘
ترجمہ:…’’بھروسہ کیا میں نے اس ذات پر جو زندہ ہے مرے گی نہیں جس نے نہیں بنایا بیٹا نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے نہ کوئی ذلت میں مددگار ہے۔۔۔ اس کی بڑائی بیان کیجئے‘‘۔۔۔ (کنزالعمال :۲؍۷۲۔۔۔الدُعاء المسنون: ص۴۱۸۔۔۔۴۱۹)

آزمائش سے حفاظت کی دُعا

۔’’اَللّٰھُمَّ اَحْسَنِ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَۃِ‘‘۔۔۔
ترجمہ:…’’اے اللہ! تمام کاموں میں ہمارا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا کی رسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما‘‘۔

’’یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ کہہ کر دُعا مانگئے

حضرت لیث بن سعد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا واقعہ اس طرح سنایا کہ میں نے طائف میں ایک آدمی سے کرایہ پر خچر لیا ۔۔۔ کرایہ پر دینے والے نے یہ شرط لگائی کہ وہ راستہ میں جس منزل پر چاہے گا مجھے ٹھہرائے گا۔۔۔چنانچہ وہ مجھے ایک ویرانے کی طرف لے کر چل پڑا اور وہاں پہنچ کر اس نے کہا۔۔۔ یہاں اُتر جائو۔۔۔ میں وہاں اُتر گیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں قتل ہوئے پڑے تھے۔۔۔ جب وہ مجھے قتل کرنے لگا تو میں نے کہا کہ مجھے ذرا دو رکعت نماز پڑھنے دو۔۔۔ اس نے کہا پڑھ لو۔۔۔ تم سے پہلے ان لوگوں نے بھی نماز پڑھی تھی لیکن نماز سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔۔۔
جب میں نماز پڑھ چکا تو وہ مجھے قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو میں نے کہا ’’یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ تو اس نے ایک آواز سنی کہ اسے قتل نہ کرو۔۔۔ وہ ایک دم ڈر گیا اور اس آواز والے کو تلاش کرنے گیا تو اسے کوئی نہ ملا۔۔۔ وہ واپس آیا تو میں نے اونچی آواز سے کہا ’’یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ اس طرح تین مرتبہ ہوا پھر اچانک گھوڑے پر ایک سوار نمودار ہوا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک نیزہ تھا۔۔۔ اس نیزے کے سرے سے آگ کا شعلہ نکل رہا تھا۔۔۔
اس سوار نے اس کو اس زور سے نیزہ مارا کہ پار ہوکر کمر کی طرف نکل آیا اور وہ مرکرزمین پر گرگیا۔۔۔ پھر مجھ سے کہا جب تم نے پہلی مرتبہ ’’یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ‘‘ کہہ کر پکارا تھا تو میں اس وقت ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔ جب تم نے دوبارہ پکارا تھا تو میں آسمانِ دُنیا پر تھا۔۔۔ جب تم نے تیسری مرتبہ پکارا تو میں آپ کے پاس پہنچ گیا۔۔۔ (حیاۃ الصحابہ جلد۳صفحہ ۶۰۶)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں عجیب دُعا سکھائی

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ مقرر تھا۔۔۔ ایک لاکھ درہم۔۔۔ ایک ماہ وظیفہ آنے میں دیر ہوگئی اور بڑی تنگی آئی تو خیال آیا کہ خط لکھ کر یاد دلائوں۔۔۔ قلم اور دوات منگوایا۔۔۔ پھر یکدم چھوڑ دیا۔۔۔ قلم کاغذ سرہانے رکھ کر سوگئے۔۔۔ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا۔۔۔ حسن! میرے بیٹے ہوکر مخلوق سے مانگتے ہو؟ کہا ۔۔۔ تنگی آگئی ہے۔۔۔
تو فرمایا ۔۔۔ تو میرے اللہ سے کیوں نہیں مانگتا؟کہا۔۔۔ کیا مانگوں؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں مندرجہ ذیل دُعا سکھائی:۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اقْذِفْ فِیْ قَلْبِیْ رَجَآئَ کَ۔۔۔ وَاقْطَعْ رَجَائِیْ عَمَّنْ سِوَاکَ حَتّٰی لَا اَرْجُوْا اَحَدًا غَیْرَکَ ط اَللّٰھُمَّ وَمَا ضَعُفَتْ عَنْہُ قُوَّتِیْ وَقَصُرَ عَنْہُ امَلِی۔۔۔ وَلَمْ تَنْتَہِ اِلَیْہِ رَغْبَتِیْ وَلَمْ تَبْلُغْہُ مَسْاَلَتِیْ وَلَمْ یَجْرِ عَلٰی لِسَانِیْ مِمَّا اَعْطَیْتَ اَحَدًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ مِنَ الْیَقِیْنِ فَخُصَّنِیْ بِہ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ط‘‘۔
ترجمہ:…’’اے اللہ! ہمارے دل کو اپنی اُمیدوں سے وابستہ فرما۔۔۔ اور اپنے علاوہ سے ہماری اُمیدیں ختم فرما۔۔۔ یہاں تک کہ تیرے علاوہ کسی سے اُمید نہ ہو۔۔۔ اے اللہ! میری قوت کمزور ہوگئی۔۔۔ اُمید ختم ہوگئی اور میری رغبت تیری طرف ختم نہیں ہوئی۔۔۔ نہ میرا سوال تجھ تک پہنچ سکا اور میری زبان پر وہ یقین نہ جاری ہوسکا جو تونے اوّلین و آخرین کو دیا۔۔۔ اے رب العالمین! مجھے بھی اس کے ساتھ خاص کردے‘‘۔۔۔ کیا زبردست دُعاء ہے۔۔۔ بیٹا یہ دُعاء مانگ۔۔۔ چند دن کے بعد ایک لاکھ کے بجائے پندرہ لاکھ پہنچ گیا۔۔۔ (الارج۔۔۔ ابن ابی الدنیا ۳؍۸۶۔۔۔ الدُعاء المسنون۔۔۔ صفحہ ۵۲۰)

اللہ کی پناہ میںآئیے!۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ان چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے (سنن النسائی)
جھد البلاء: سب سے پہلی چیز جس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنے کا حکم ہوا ہے وہ ہے جھد البلاء اس کا لفظی ترجمہ تو ہے آزمائش و مصیبت کی مشقت و سختی ۔
درک الشقآء: درک کا معنی ہے لاحق ہونا۔۔۔ شقاء کا معنی ہے بد بختی و محرومی یعنی محرومی کے لاحق ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرو
سوء القضاء: تیسرا نمبر سوء القضاء سے بچنے کے لئے اللہ سے دُعا مانگنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔۔۔ سوء کا معنی تو ہے بری۔۔۔ تکلیف دہ خواہ وہ حالت ہو یا چیز۔۔۔
شماتۃ الاعداء: دشمنوں کی خوشی۔۔۔ یہ بھی دنیا کی زندگی میں بہت بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے کہ آدمی کو کوئی ایسی صورت پیش آجائے جس سے اس کے دشمن خوش ہوجائیں۔۔۔
آج سے ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کرتے ہوئے اس دُعا کو اپنے معمولات میں شامل کرلیں۔۔۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جُھْدِ الْبَلاَئِ وَدَرْکِ الشِّقَآئِ وَسُوْئِ الْقَضَائِ وَشَمَاتَۃِ الْاِعْدَائِ

قرض اور گناہ سے اللہ کی پناہ میں آئیے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز سے سب سے زیادہ اللہ کی پناہ مانگتے تھے وہ قرض اور گناہ ہے۔۔۔(سنن نسائی)
اَللّٰھُمَّ اِنِّیٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَغْرَمِ وَالْمَأثَمْ۔۔۔
اے اللہ!میں قرض سے اور گناہ سے(اور گناہ کا ذریعہ بننے والے ہر کام سے)بچنے کیلئے آپ سے آپ کی پناہ کا سوال کرتا ہوں۔۔۔

فقر ۔۔۔ قلت ۔۔۔ ذلت سے اللہ کی پناہ میں آئیے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم یوں دُعا فرمایا کرتے تھے۔۔۔ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقِلَّۃِ وَالذِّلَّۃِ
۔’’اے اللہ میں آپکی پناہ میں آتا ہوں فقر سے۔۔۔ قلت اس سے کہ میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے‘‘ (ابو دائود)

حرص و لالچ سے حفاظت کی دُعا

۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الثُّبَاتَ فِی الْاَمْرِ وَالْعَزِیْمَۃَ عَلَی الرُّشْدِ وَاَسْأَلُکَ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَاَسْأَلُکَ حُسْنَ عِبَادَتِکَ وَاَسْأَلُکَ قَلْبًا سَلِیْمًا وَاَسْئَلُکَ لِسَانًا صَادِقًا وَاَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرٍ مَاتَعْلَمُ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا تَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ‘‘۔۔۔
ترجمہ:’’اے اللہ! میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی ۔۔۔ بھلائیوں کی پختگی۔۔۔ تیری نعمتوں کا شکریہ۔۔۔ تیری عبادتوں کی اچھائی۔۔۔ سلامتی والا دل۔۔۔ سچی زبان۔۔۔ مانگتا ہوں تیرے علم میں جو بھلائی ہے اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس سے پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ تو تمام غیب کو جاننے والا ہے۔۔۔ ‘‘ (تفسیر ابن کثیر)

حضرت دانیال علیہ السلام کی دُعائیں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ بخت نصر بادشاہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت دانیال علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں گرفتار کرالیا۔۔۔ دو شیروں کو بھوکا کرکے آپ کو ان کے ساتھ کنوئیں میں ڈال دیا ۔۔۔ پھر کنوئیں کو پانچ دن تک اوپر سے گارا مٹی لگا کر بند رکھا ۔۔۔ پانچ دنوں کے بعد کھولا تو دیکھا کہ حضرت دانیال علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور دونوں شیر ایک طرف آرام سے بیٹھے ہیں۔۔۔
بخت نصر نے حضرت دانیال علیہ السلام سے کہا آپ نے کیا پڑھا ہے ۔۔۔ جس نے شیروں کو ہٹا دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ پڑھا ہے۔۔۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَایَنْسَی مَنْ ذَکَرَہٗ
(سب تعریفیں اللہ کی ہیں جو اپنا ذکر کرنے والوں کو نہیں بھولتا)۔
َلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَا یُخَیِّبُ مَنْ دَعَاہٗ
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جسے پکارنے والا ناکام نہیں ہوتا۔۔۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَا یَکِلُ مَنْ تَوَکَّلَ عَلَیْہِ اِلٰی غَیْرِہٖ۔۔۔
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جس پر بھروسہ کرنے والا غیر کے سپرد نہیں کیا جاتا)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہو ثِقَتُنَاحِیْنَ تَنْقَطِعُ عَنَّا الْحِیْلُ۔۔۔
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں کہ جب ہمارے سب حیلے ختم ہو جاتے ہیں تو وہی ہمارا سہارا ہے)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھُوَ رَجَائُ نَاحِیْنَ تَسُوْئُ ظُنُوْنُنَا بِاَعْمَالِنَا۔۔۔
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں کہ جب اپنے اعمال سے ہمارے گمان برے ہوجاتے ہیں تو وہی ہماری امید ہے)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ یَکْشِفُ ضُرَّنَا عِنْدَ کَرْبِنَا۔۔۔
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جو ہماری مصیبت کے وقت ہماری تکلیف دور کرتاہے)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ یَجْزِیْ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَاناً۔۔۔
(سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو نیکی کا بدلہ نیکی سے دیتا ہے)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ یَجْزِیْ بِالصَّبْرِ نَجَاۃً۔۔۔
( سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی ہیں جو صبر کے بدلہ میں نجات عطا فرماتا ہے۔۔۔
(رواہ ابن ابی الدنیا فی کتاب الشکر)

تدبیر کے ساتھ دُعا بھی ضروری ہے

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے دُعا کا ایک عجیب اور خوبصورت جملہ منقول ہے کہ جب بھی آپ کسی کام کی کوئی تدبیر فرماتے۔۔۔ چاہے دُعا کی ہی تدبیر فرماتے تو اس تدبیر کے بعد یہ جملہ ارشاد فرماتے۔۔۔
اَللّٰھُمَّ ھَذَا الْجُہْدُ وَعَلَیْکَ الْتُکَلَانِ ( ترمذی)
یا اللہ! میری طاقت میں جو کچھ تھا وہ میں نے اختیار کر لیا۔۔۔ لیکن بھروسہ آپ کی ذات پر ہے۔۔۔ آپ ہی اپنی رحمت سے اس مقصد کو پورا فرما دیجئے۔۔۔

حضرت آدم علیہ السلام کو دُعا کی تلقین

جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوگئی اور گندم کے درخت سے کھالیاتو بعد میں اپنی غلطی کا احساس تو ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وہ کلمات سکھائے کہ مجھ سے یوں کہو اور اس طرح توبہ کرو۔۔۔ وہ کلمات یہ تھے:۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف۔۔۔ آیت ۲۳)

وہ کلمات جن سے دُعا شروع کی جاتی ہے

حضرت بُریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔۔۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِاَنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ اِلْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌا
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میں تجھ سے اس وسیلہ سے مانگتا ہوں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ بیشک تو ہی اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے بے نیاز ہے جس سے نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے‘‘۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے اس اسم اعظم کے ساتھ مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ساتھ مانگا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور دیتے ہیں اور جب بھی اس کے ساتھ اسے پکارا جاتا ہے تو وہ ضرور قبول کرتے ہیں۔۔۔ (اخرجہ ابودائود والترمذی)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرض نماز کے بعد کی مسنون دُعائیں

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں کہ تم نماز کے بعد یہ دُعا کبھی نہ چھوڑنا ہمیشہ مانگنا۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اَعِنِّی عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ‘‘
ترجمہ:’’اے اللہ! اپنے ذکر میں اپنے شکر ادا کرنے میں اور اپنی اچھی طرح عبادت کرنے میں میری مدد فرما‘‘۔۔۔
حضرت عون بن عبداللہ بن عتبہ ؒ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پہلو میں نماز پڑھی اس نے سنا کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سلام کے بعد دُعا پڑھ رہے ہیں۔۔۔
اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔ اے اللہ! تو ہی سلامتی دینے والا ہے تیری ہی جانب سے سلامتی نصیب ہوتی ہے تو بہت برکت والا ہے اے عظمت و جلال والے اور اکرام واحسان والے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو دایاں ہاتھ اپنے سر پر پھیرتے اور فرماتے۔۔۔
بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِیْم اَللّٰھُمَّ اَذْھِبْ عَنِّی الْھَمَّ وَالْحُزْنَ‘‘۔
ترجمہ:۔۔۔ ’’اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ بڑا مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے اے اللہ! تو ہر فکر اور پریشانی مجھ سے دور فرما دے‘‘۔۔۔(اخرجہ الطبرانی )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے بعد یہ دُعا پڑھتے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِزْقًا طَیِّبًا وَعِلْمًا نَافِعًا وَّعَمَلًا مُتَقَبَّلاً‘‘
ترجمہ:۔۔۔ اے اللہ! میں تجھ سے پاکیزہ روزی ۔۔۔ نفع دینے والا علم اور مقبول عمل کی توفیق مانگتا ہوں‘‘۔۔۔ (اخرجہ الطبرانی)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دُعا پڑھا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِوَعَذَابِ الْقَبْرِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میں کفر۔۔۔ فقر اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔(اخرجہ ابن ابی شیبۃ )
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔۔
کہ میں نے سنا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دُعا پڑھتے
’’اَللّٰھُم لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَاالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں ۔۔۔۔اور کسی دولتمند کو اس کی دولت تیری پکڑ سے بچا نہیں سکتی‘‘۔۔۔(اخرجہ النسائی کذافی الکنز ۱/۱۹۶)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دُعائیں جن کا وقت مقرر نہیں تھا

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا مانگا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰیٰ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت۔۔۔ تقویٰ۔۔۔ پاکدامنی اور دل کا غنا مانگتا ہوں‘‘۔۔۔(اخرجہ مسلم)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا مانگا کرتے تھے۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ وَجَھْلِیْ وَاِسْرَافِیْ فِیْ اَمْرِیْ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ جِدِّی وَھَزْلِیْ وَخَطَأیْ وَعَمَدِیْ وَکُلُّ ذٰلِکَ عِنْدِی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاقَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا اَسْرَرْتُ وَمَا اَعْلَنْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا‘‘۔
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میری خطا اور میرے نادانی والے کام اور کاموں میں میرا حد سے بڑھ جانا اور وہ گناہ جنہیں تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے سب معاف فرما اور میرے وہ گناہ جو سچ مچ ارادہ سے سرزد ہوئے یا ہنسی مذاق میں ہو گئے یا غلطی سے ہو گئے یا جان بوجھ کر قصداً کئے وہ سب معاف فرما اور یہ سب طرح کے گناہ میرے پاس ہیں اے اللہ! میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما اور جو گناہ چھپ کر کئے اور جو علی الاعلان کئے وہ بھی معاف فرما اور جن گناہوں کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے وہ بھی معاف فرما تو ہی آگے کرنے والا اور پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔۔۔ (عند مسلم ایضاً)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا مانگا کرتے تھے
۔’’اَللّٰھُمَّ اصْلِحْ لِیْ دِیْنِیَ الَّذِیْ ھُوَ عِصْمَۃُ اَمْرِیْ وَاَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَاشِیْ وَاصْلِحْ لِیْ اٰخِرَتِیَ الَّتِیْ فِیْھَا مَعَادِیْ وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍوَّاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ‘‘۔
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میرا وہ دین سنوار دے جس سے میرے تمام کاموں کی حفاظت ہوتی ہے اور میری وہ دنیا درست فرما دے جس سے میری معاش کا تعلق ہے اور میری آخرت کو بھی ٹھیک کر دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو میرے لئے ہر خیر میں بڑھنے کا ذریعہ بنا اور موت کو میرے لئے ہر شر سے راحت پانے کا ذریعہ بنا‘‘۔۔۔(عند مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعا مانگا کرتے تھے
۔’’اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ اَنْ تُضِلَّنِیْ اَنْتَ الْحَیُّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ وَالْجِنُّ وَالْاِنْسُ یَمُوْتُوْنَ‘‘۔
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میں تیرا فرمانبردار ہو گیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیری طرف ہی متوجہ ہوا اور تیری مدد سے ہی میں نے اہل باطل سے جھگڑا کیا اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں کہ تو مجھے گمراہ کر دے۔۔۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی وہ ذات ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی اور اسے موت نہیں آئے گی باقی تمام جنات اور انسان ایک دن مر جائیں گے‘‘۔۔۔(عند مسلم ایضاً و البخاری)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر یہ دُعا مانگا کرتے تھے یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ! ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ
ترجمہ:۔۔۔ اے دلوں کو پلٹنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھ‘‘(عند الترمذی وقال الترمذی حدیث حسن)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعا بھی مانگا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجَاۃَ مِنَ النَّارِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! ہم تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والے اعمال اور تیری مغفرت کو ضروری بنانے والے اسباب اور ہر گناہ سے حفاظت اور ہر نیکی کی توفیق اور جنت میں داخلہ کی کامیابی اور دوزخ سے نجات مانگتے ہیں‘‘۔۔۔(عندالحاکم)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت زیادہ دُعا مانگی لیکن ہمیں اس میں سے کچھ یاد نہ رہا۔۔۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے بہت زیادہ دُعا مانگی لیکن ہمیں اس میں سے کچھ یاد نہ رہا۔۔۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں کوئی ایسی جامع دُعا نہ بتا دوں جس میں یہ سب کچھ آ جائے ؟ تم یہ دُعا مانگا کرو۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَئَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲ‘‘۔
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! ہم تجھ سے وہ تمام بھلائیاں مانگتے ہیں جو تجھ سے تیرے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگی ہیں اور ان تمام چیزوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں جن سے تیرے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے اور تو ہی وہ ذات ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے۔۔۔ اور (ہمیں مقصود تک) پہنچانا (تیرے فضل سے) تیرے ہی ذمہ ہے ۔۔۔ برائیوں سے بچنے کی طاقت اور نیکیاں کرنے کی قوت تیری توفیق سے ہی ملتی ہے‘‘۔۔۔ (اخرجہ الترمذی ۲/۱۹۰)

اللہ کی پناہ پر مشتمل مسنون دُعائیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَالْجُبْنِ وَالْھَرَمِ وَالْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَاوَالْمَمَاتِ وَفِیْ رَوَایَۃٍ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ‘‘ ’’اے اللہ! میں عاجز ہو جانے سے ۔۔۔ کاہلی سے۔۔۔ بزدلی سے۔۔۔ زیادہ بوڑھا ہوجانے سے اور کنجوسی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور عذاب قبر سے تیری پنا ہ چاہتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ اور دبائو سے (تیری پناہ چاہتا ہوں)‘‘۔۔۔ (اخرجہ الشیخان)
مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُعا میں فرمایا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مَنْ شَرِّمَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّمَا لَمْ اَعْمَلْ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! میں نے اب تک جو کیا اس کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں اور جو نہیں کیا اس کے شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں‘‘۔۔۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایک دُعا یہ بھی تھی
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفَجْأَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخْطِکَ‘‘۔۔۔’’اے اللہ! میں تیری نعمت کے چلے جانے سے ۔۔۔ تیری دی ہوئی عافیت کے ہٹ جانے سے۔۔۔ اور تیری اچانک پکڑ سے اور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دُعا فرمایا کرتے تھے
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَمِنْ شَرِّالْغِنٰی وَالْفَقْرِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! آگ کے فتنے سے۔۔۔ آگ کے عذاب سے اور مالداری اور فقیری کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ (عندالاربعۃ بالاسانید الصحیح)
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الْاَخْلَاقِ وَالْاَعْمَالِ وَالْاَھْوَائِ‘‘۔۔۔’’اے اللہ! میں برے اخلاق و اعمال سے اور بری نفسانی خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ (عند الترمذی)۔۔۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبَرَصِ وَالْجُنُوْنِ وَالْجُذَامِ وَسَیِّئِ الْاَسْقَامِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! برص (پھلہری) سے۔۔۔ دیوانگی سے۔۔۔ کوڑھ پن سے اور تمام بری اور موذی بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ (عند ابی داوٗد والنسائی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُوْعِ فَاِنَّہٗ بِئْسَ الضَّجِیْعُ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَاِنَّھَا بِئْسَتِ الْبِطَانَۃُ‘‘
’’اے اللہ! میں بھوک سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ بھوک بہت برا ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ چاہتا ہوں اس لئے کہ یہ بدترین خصلت ہے۔۔۔ (عند ابی دائود والنسائی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوْئِ الْاَخْلَاقِ‘‘۔۔۔’’اے اللہ! میں آپس کے جھگڑے ۔۔۔ فساد ۔۔۔ نفاق اور برے اخلاق سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ (عند ابی دائود والنسائی )
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ یَوْمَ السُّوْئِ وَمِنْ لَّیْلَۃِ السُّوْٓئِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْٓئِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْئِ وَمِنْ جَارِ السُّوْئِ فِیْ دَارِ الْمُقَامَۃِ‘‘۔۔۔
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! برے دن سے۔۔۔ بری رات سے۔۔۔ بری گھڑی سے۔۔۔ برے ساتھی سے اور (مستقل رہائش والے) وطن کے برے پڑوسی سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔ (عندالطبرانی )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت حسن۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ان کلمات سے پناہ میں دیا کرتے تھے۔۔۔
’’اِنِّیْ اُعِیْذُ کَمَا بِکَلِمَاتِ اﷲِ التَّآمَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَھَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَّمَّۃٍ‘‘
ترجمہ:’’میں تم دونوں کو ہر شیطان سے ۔۔۔ موذی زہریلے جانوروں سے اور ہر لگنے والی بری نظر سے اللہ کے ان کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں جو پورے ہیں‘‘۔۔۔ (عند ابی نعیم فی الحلیۃ)

جنات سے اللہ کی پناہ والی مسنون دُعائیں

۔’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اﷲِ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمِنْ شَرِّ مَا یُعْرُجُ فِیْھَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَمِنْ شَرِّ کُلِّ طَارِقٍ اِلاَّ طَارِقًا یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّارَحْمَانُ‘‘۔۔۔
ترجمہ:۔۔۔’’میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ لیتا ہوں ان تمام چیزوں کے شر سے جنہیں اس نے پیدا فرما کر پھیلادیا اور جنہیں اس نے بے مثال بنایا اور ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے اور ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان میں چڑھتی ہے اور رات اور دن کے فتنوں سے اوررات کو پیش آنے والے ہر حادثہ کے شر سے سوائے اس حادثہ کے جو خیر لیکر آئے۔۔۔ اے رحمن‘‘۔
چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کلمات کہے جس سے ) ان شیاطین کی آگ بجھ گئی اور اللہ نے انہیں شکست دے دی‘‘۔۔۔ (اخرجہ احمد وابو یعلیٰ)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دُعائیں

حضرت حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی دُعا میں فرمایا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ فِیْ عَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ مَاتُعْطِیْنِیْ مِنَ الْخَیْرِ رِضْوَانَکَ وَالدَّرَجَاتِ الْعُلٰی فِی جَنَّاتِ النَّعِیْمِ‘‘
ترجمہ:’’اے اللہ! میں تجھ سے اپنے ہر کام کے انجام میں خیر کا سوال کرتا ہوں اے اللہ! تو مجھے جس خیر کی توفیق عطا فرمائے اسے اپنی رضا کا اور نعمتوں والی جنتوں میں اونچے درجات کے حاصل ہونے کا ذریعہ بنا‘‘۔۔۔ (اخرجہ احمد فی الزہد)
حضرت معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی دُعا میں فرمایا کرتے تھے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ خَیْرَ عُمْرِیْ اٰخِرَہٗ وَخَیْرَ عَمَلِیْ خَوَاتِمَہٗ وَخَیْرَ اَیَّامِیْ یَوْمَ الْقَاکَ‘‘
’’اے اللہ! میری عمر کا سب سے بہترین حصہ و ہ بنا جو اس کا آخر ہو اور میراسب سے بہترین عمل وہ بنا جو خاتمہ والا ہو اور میراسب سے بہترین دن وہ بنا جو تیری ملاقات کا دن ہو۔۔۔ (عند سعید بن منصور وغیرہ)
حضرت ابو یزید مدائنی ؒ کہتے ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایک دُعا یہ بھی تھی
’’اَللّٰھُمَّ ھَبْ لِیْ اِیْمَانًا وَیَقِیْنًا وَمُعَافَاۃً وَنِیَّۃً‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ مجھے ایمان و یقین عافیت اور سچی نیت نصیب فرما‘‘۔۔۔
(عند ابن ابی الدنیا ایضاً کذافی الکنز ۱/۳۰۳)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ تَاْخُذَنِیْ عَلٰی عِزَّۃٍ اَوْ تَذَرَنِیْ فِیْ غَفْلَۃٍ اَوْتَجْعَلَنِیْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ‘‘
ترجمہ:’’اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تو اچانک بے خبری میں میری پکڑ کرے۔۔۔ یا مجھے غفلت میں پڑا رہنے دے یا مجھے غافل لوگوں میں سے بنا دے‘‘۔۔۔(اخرجہ ابن ابی شیبۃ و ابو نعیم فی الحلیۃ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں دُعا کی: ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ظُلْمِیْ وَکُفْرِیْ‘‘’اے اللہ! میرے ظلم اور میرے کفر کو معاف فرما‘‘۔
حضرت ابوعبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ (میرے والد) حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے پوچھا گیا کہ جس رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ سے فرمایا تھا کہ مانگو جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔۔۔ اس رات آپ نے کیا دُعا مانگی تھی؟ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے یہ دُعا مانگی تھی۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ اِیْمَانًا لَایَرْتَدُّ وَنَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَمُرَافَقَۃَ نَبِیِّکَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَعْلٰی دَرَجَۃِ الْجَنَّۃِ جَنَّۃِ الْخُلْدِ‘‘’’اے اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو باقی رہے اور زائل نہ ہو اور ایسی نعمت مانگتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہو اور ہمیشہ رہنے کی جنت کے اعلیٰ درجے میں تیرے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت مانگتا ہوں‘‘۔۔۔ (اخرجہ ابن ابی شیبۃ کذافی الکنز ۱/۳۰۷)
حضرت شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ یہ دُعائیں کثرت سے کیا کرتے تھے
۔’’رَبَّنَا اَصْلِحْ بَیْنَنَا وَاھْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَاصْرِفْ عَنَّا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْ اَسْمَاعِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُلُوْبِنَا وَاَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِھَا قَائِلِیْنَ بِھَا وَاَتْمِمْھَا عَلَیْنَا۔۔۔
ترجمہ:’’اے ہمارے رب ! ہمارے آپس کے تعلقات خوشگوار بنا دے اور ہمیں اسلام کے راستے دکھا اور ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنی میں لا اور ہم کو ظاہری وباطنی بدکاریوں سے دور رکھ اور ہمارے کانوں کو ہماری آنکھوں کو۔۔۔ ہمارے دلوں کو اور ہمارے بیوی بچوں کو ہمارے حق میں باعث برکت بنا دے اور ہماری توبہ قبول فرما۔۔۔ بیشک تو ہی بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار ان کا ثنا خواں اور لوگوں کے سامنے انہیں بیان کرنے والا بنا دے اور ان (نعمتوں) کو ہم پر پورا فرما دے‘‘۔۔۔ (اخرجہ البخاری فی الادب المفرد ۹۳)
حضرت ابو قلابہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے
اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ فِیْ اَھْلِ الشِّقَآئِ فَامْحُنِیْ وَاثْبُتْنِیْ فِیْ اَھْلِ السَّعَادَۃِ‘‘
ترجمہ:۔۔۔’’اے اللہ! اگر تو نے میرا نام بدبختی والوں میں لکھا ہے تو وہاں سے میرا نام مٹا کر خوش قسمت لوگوں میں لکھ دے‘‘۔۔۔ (عند الطبرانی)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ دُعا مانگا کرتے تھے۔۔۔
۔’’اَللّٰھُمَّ زِدْنِیْ اِیْمَانًا وَیَقِیْنًا وَفَھْمًا وَعِلْمًا‘‘’’اے اللہ! میرے ایمان و یقین سمجھ اور علم کو بڑھا دے‘‘۔۔۔(عند الطبرانی)
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ہند کہتی ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب بستر پر لیٹتے تو یہ دُعا کرتے’’اَللّٰھُمَّ تَجَاوَزْ عَنْ سَیِّئَاتِیْ۔ وَاَعْذِرْنِیْ بِعِلَّاتِیْ‘‘۔
۔’’اے اللہ! میری برائیوں سے درگزر فرما اور میری بیماریوں کی وجہ سے مجھے معذور قرار دے‘‘۔۔۔ (اخرجہ الطبرانی)
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جب بستر پر لیٹتے تو یہ دُعا کرتے۔۔۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ غِنَی الْاَھْلِ وَالْمَوَالِیْ وَاَعُوْذُبِکَ اَنْ تَدْعُوَ عَلَیَّ رَحِمٌ قَطَعْتُھَا‘‘
ترجمہ:’’اے اللہ! میں تجھ سے اہل و عیال کے اور تمام متعلقین کے غنا کو مانگتا ہوں اور میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں رشتہ توڑوں اور وہ رشتہ میرے لئے بددُعا کرے‘‘۔۔۔ (اخرجہ الطبرانی)
حضرت عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ یہ دُعا کیا کرتے
۔’’اَللّٰھُمَّ ھَبْ لِیْ حَمْدًا وَھَبْ لِیْ مَجْدًا لَا مَجْدَ اِلَّا بِفِعَالٍ وَلَا فِعَالَ اِلَّا بِمَالٍ اَللّٰھُمَّ لَا یُصْلِحُنِی الْقَلِیْلُ وَلَا اَصْلُحُ عَلَیْہِ‘‘’’اے اللہ! مجھے تعریف عطا فرما اور مجھے بزرگی عطا فرما اور بزرگی کسی بڑے کام کے ذریعہ سے ہی حاصل ہو سکتی ہے اور کوئی بڑا کام مال کے ذریعہ سے ہی ہوا کرتا ہے اے اللہ! تھوڑا مال میرے حالات درست نہیں کر سکتا اور نہ ہی تھوڑے مال سے میں درست رہ سکتا ہوں (لہذا تو اپنی شان کے مطابق اپنے خزانوں میں سے عطا فرما)‘‘ (اخرجہ ابن سعد ۳/۶۱۴)
حضرت بلال بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے
۔’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ تَفْرِقَۃِ الْقَلْبِ‘‘’’اے اللہ! میں دل کے بکھر جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘۔۔۔
کسی نے پوچھا دل کے بکھر جانے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے میرے لئے ہر وادی میں کچھ مال رکھ دیا جائے۔۔۔ (اور مجھے ہر وادی میں جا کر اپنے مقدر کا مال جمع کرنا پڑے) (اخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ ۱/۲۱۹)

دُعا مانگتے ہی طوفان پلٹ گیا

عبداللہ بن حبیب اندلس کے مشہور عالم اور محدث تھے۔۔۔ یہ مستجاب الدعوات تھے کثرت سے دُعائیں فرماتے۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ طلب علم حدیث کے لیے بحری سفر میں تھے کہ لہروں میں طغیانی آگئی اور سفینہ کے ڈوبنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔۔۔
اس مشکل وقت میں انہوں نے وضو کیا۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں کو آسمانوں کی طرف بلند کر دیا اور پھر جو دُعا کی وہ پڑھنے اور سننے سے تعلق رکھتی ہے۔۔۔
اللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ رِحْلَتِیْ ھَذِہِ لِوَجْھِکَ خَالِصًا وَلاِ حْیَائِ سُنَنِ رَسُوْلِکَ فَاکْشِفْ عَنَّا ھَذَا الغَمَّ وَأَرِنَا رَحْمَتَکَ کَمَا أَرَیْتَنَا عَذَابَکَ‘
۔’’اے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میرا یہ سفر خالصتاً آپ کی رضا کے لیے اور آپ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی زندہ کرنے کے سلسلے میں ہے۔۔۔ اے اللہ! ہم سے اس مصیبت کو دور فرما دیجئے اور اب ہمیں اسی طرح اپنی رحمت بھی دکھلائیے جس طرح اپنا عذاب دکھلایا ہے۔۔۔‘‘۔
یہ دُعا مانگنے کی دیر تھی کہ اللہ رب العزت نے اپنے لطف و کرم سے اس مشکل کو دور کر دیا۔۔۔۔طغیانی تھم گئی‘ پانی کو قرار آگیا اور ان کی کشتی پار لگ گئی۔۔۔( من کتاب عجائب الدُعاء الجز الثانی)

کھانا سامنے آنے پر دُعا

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی کھانے کی چیز حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے آتی تو آپ اس وقت یہ کلمات فرمایا کرتے تھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی رَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلاَ قُوَّۃَ۔۔۔
اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام تعریفیں اس اﷲ تعالیٰ کی ہیں جس نے مجھے میری قدرت اور طاقت کے بغیر یہ رزق عطا فرمایا۔۔۔ اس دُعا کے اندر اس بات کا اعتراف ہے کہ میرے اندر نہ قدرت تھی اور نہ طاقت تھی کہ میں یہ رزق اپنے لئے مہیا کرسکتا۔۔۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میری طاقت اور قدرت کے بغیر یہ رزق مجھے عطا فرمایا۔۔۔ لہٰذا سنت یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے کوئی کھانے کی چیز آئے تو وہ یہ کلمات کہے۔۔۔

کھانا سامنے آنے پر دوسری دُعا

کھانا سامنے آنے کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم دوسری دُعا یہ فرماتے:۔
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَاَنْعَمْنِیْ خَیْرًا مِنْہُ
اے اﷲ! اس کھانے میں میرے لئے برکت عطا فرمااور آئندہ مجھے اس سے بھی اچھا کھانا عطا فرمایئے۔۔۔
جب آپ مدینہ منورہ سے باہر کسی سفر پر روانہ ہونے کا ارادہ فرماتے تو سب سے پہلے تین مرتبہ تکبیر فرماتے:۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔۔۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔۔۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ
اس کے بعد جب سواری پر سوار ہوتے تو یہ دُعا پڑھتے:۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ( الزخرف: ۱۳۔۔۔۱۲)
اس کے بعد ایک عجیب دُعا یہ فرماتے: اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَیْنَا ھَذٰا السَّفَرَ وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہ‘‘۔

سونے سے پہلے ’’استغفار‘‘۔

اے اللہ! اب میں دن ختم کر رہا ہوں۔۔۔ اس وقت میں آپ سے سارے دن کی خطائوں کی معافی مانگتا ہوں:۔
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ

نیا کپڑا پہننے کی دُعا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ جب آپ کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کپڑے کا نام لیتے۔۔۔ چاہے وہ عمامہ یا قمیص ہو یا چادر ہو اور اس کا نام لے کر یہ دُعا کرتے ۔۔۔
اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ ۔۔۔ اَسْأَلُکَ خَیْرَہ۔۔۔ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہُ وَاَعُوْذُ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ
اے اللہ۔۔۔ آپ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے یہ لباس عطا فرمایا۔۔۔ میں آپ سے اس لباس کے خیر کا سوال کرتا ہوں اور جن کاموں کیلئے یہ بنایا گیا ہے۔۔۔ ان میں سے بہتر کاموں کا سوال کرتا ہوں اور میں آپ سے اس لباس کے شر سے پناہ چاہتا ہوں اور جن برے کاموں کیلئے یہ بنایاگیا ہے۔۔۔ اس کے شر سے پناہ چاہتا ہوں۔۔۔ (ترمذی)

غصہ کا علاج

ایک دن بازار سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لا رہے تھے۔۔۔ راستہ میں دو آدمی ملے جو آپس میں جھگڑ رہے تھے۔۔۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ میں ایسے کلمات جانتا ہوں کہ اگر یہ اس کو کہیں تو ان کا غصہ ختم ہو جائے وہ یہ ہیں:۔
اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم

زہریلے جانور اور فالج کے اثر سے حفاظت

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت ابان کا معمول تھا کہ وہ صبح شام پابندی سے یہ دُعا پڑھتے تھے۔۔۔
۔’’ بِسمِ اﷲِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعْ اِسْمِہِ شَیٌٔ فِی الاَرضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَھُوَ السَّمِیعُ العَلِیمُ ‘‘۔۔۔
ایک دن ان پر فالج کا اثر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس دن میں نے یہ دُعا نہیں پڑھی تھی۔۔۔ یہ اسی کا اثر ہے۔۔۔۔
ورنہ میں اس آزمائش سے دوچار نہیں ہوتا۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص اس دُعا کو تین بار صبح کو پڑھے گا۔۔۔ وہ شام تک اور جو شام کو پڑھے گا ۔۔۔وہ صبح تک ہر طرح کی مصیبت و آزمائش سے محفوظ رہے گا۔۔۔
ایک شخص نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ
مجھے رات بچھو نے ڈس دیا۔۔۔
آپ نے فرمایا کہ تم نے شام کو یہ دُعا کیوں نہیں پڑھی کہ میں اللہ سے اس کی مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔۔۔
اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اﷲِ التَّامَّاتِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ۔۔۔
اگر روزانہ بچوں یا کسی مریض و معذور پر ان دُعائیہ کلمات کو پڑھ کر دم کر دیا جائے ۔۔۔تو بھی یہ دُعا اپنا اثر دکھاتی ہے۔۔۔

بیوی بچوں کیلئے دعا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنی اولاد کے لیے تم مجھ سے اس طرح مانگو کہ اے اللہ ہمیں ایسی بیویاں اور بچے عطا فرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں اور ہمیں متقین کا امام بنا۔۔۔
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِن اَزوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعیُنٍ وَّاجعَلنَا للِمُتَّقِینَ اِمَامًا
اے اللہ:۔۔۔ خود مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی۔۔۔ اے اللہ تو ہی ہماری اس دُعا کو قبول فرما۔۔۔
رَبِّ اجْعَلنِی مُقِیمَ الصَّلوٰۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآئِ۔۔۔

جب کسی مریض یا مصیبت زدہ کو دیکھیں تو یہ پڑھیں

میں جب بھی کسی مریض یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کردہ یہ دُعا۔۔۔
اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابتَلَاَکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّن خَلَقَ تَفضِیلاً ۔۔۔
کہ ’’ اے اللہ تیرا ہی شکر ہے تو نے مجھے اس آزمائش سے محفوظ رکھا اور تیرے بہت سارے بندوں پر تو نے مجھے فضیلت بخشی‘‘۔

قرض سے نجات کیلئے دُعا

ایک مرتبہ ایک برگزیدہ صحابی حضرت ابوامامہ کوا للہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز کے بعد خلاف معمول مسجد میں مغموم حالت میں دیکھا تو آپ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔۔۔ انہوں نے ادباً عرض کیا یا رسول اللہ:۔۔۔ پریشانیاں لاحق ہیں اور قرضوں کا بوجھ ہے جس میں میں گھلتا جا رہا ہوں۔۔۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ اے ابوامامہ:۔۔۔ کیا میں تمہیں ایسا نسخہ نہ بتائوں اور ایسی دُعا نہ سکھائوں کہ اس کو پڑھنے سے غم بھی زائل ہو جائے اور قرض بھی ادا ہو جائے۔۔۔ ابو امامہ نے عرض کی ضرور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ آپ نے فرمایا کہ تم صبح شام یہ دُعا پڑھا کرو۔۔۔ اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں فکر و غم سے۔۔۔ عاجزی و سستی سے۔۔۔ بزدلی و بخل سے ۔۔۔ قرضوں کی کثرت اور لوگوں کے ظلم سے۔۔۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوذُبِکَ مِنَ الھَمِّ وَالحُزنِ وَاَعُوذُبِکَ مِنَ العَجزِ وَالکَسْلِ وَاَعُوذُبِکَ مِنَ الجُبنِ وَالبُخلِ وَاَعُوذُبِکَ مِن غَلَبَۃِ الدَّینِ وَقَھرِ الرِّجَالِ۔۔۔
چند ہی دن گذرے تھے کہ ابو امامہ نے اس معجزانہ دُعا کو پابندی سے پڑھنے کا اثر دیکھا اور اللہ کے رسول سے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!:۔۔۔ میرا غم بھی دور ہوا اور قرض بھی ادا ہوا۔۔۔
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ چندکلمات کواگرمیں نہ کہتا رہتاتو یہود (سحروجادو سے)مجھ کو گدھابنادیتے ۔۔۔
کسی نے پوچھا وہ کلمات کیاہیں انہوں نے یہ بتلائے
اَعُوْذُ بِوَجْہِ العَظِیْمُ الّذِیْ لَیْسَ شَیئٌ اَعْظَمَ مِنْہَ وَبِکلمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ الَّتِیْ لَا یُجَاوِزْھُنَّ بَرٌّ وَّلَافَاجِرٌ وَبِاَسْمَائِ اللّٰہ الحُسْنٰی مَا عَلِمْتُ مِنْھَا وَمَا لَمْ اَعْلَمُ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ وَزْراً وَّبِرًّا۔۔۔(روایت کیا ہے اس کو مالک نے جزء الاعمال)
یہ دُعاکم ازکم صبح وشام پابندی سے تین تین مرتبہ پڑھ کر دم کرلیاکریں انشاء اللہ مکمل حفاظت رہے گی۔۔۔

تکلیف کے وقت کی دُعا

مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مؤمن کو یہ تلقین فرمائی کہ جب کبھی تمہیں کوئی تکلیف کی بات پیش آئے تو یہ کلمات پڑھو:۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ

اِنَّا لِلّٰہِ کا مطلب

اس جملہ کا معنیٰ یہ ہیں کہ ’’ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں یعنی اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہی کی مملوک ہیں
دوسرا جملہ ہے: وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ
اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔۔۔ یعنی یہ تکلیف جو پہنچی ہے۔۔۔ یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔۔۔ ایک وقت آئے گا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔۔۔

سخت سردی کے وقت کی دُعا

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ایک مرتبہ سخت ٹھنڈی رات میں صبح کی اذان دی لیکن میرے پاس کوئی آدمی حاضر نہ ہوا (یعنی مسجد میں نماز پڑھنے کوئی نہ آیا) میں نے پھر اذان دی مگر اس بار بھی کوئی نہ آیا۔۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں کو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا شدید سردی نے لوگوں کے لیے رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
۔۔۔اللھم اکسر عنھم البرد۔۔۔اللہ سردی کو لوگوں کی راہ سے ہٹا دے۔۔۔
چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ لوگ صبح کے وقت گرمی کی وجہ سے ہوا جھول رہے تھے۔۔ (حلیۃ الأولیاء ج 1ص317)

سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms

Most Viewed Posts

Latest Posts

مختلف سنتیں

مختلف سنتیں سنت-۱ :بیمار کی دوا دارو کرنا (ترمذی)سنت- ۲:مضرات سے پرہیز کرنا (ترمذی)سنت- ۳:بیمار کو کھانے پینے پر زیادہ زبردستی مت کرو (مشکوٰۃ)سنت- ۴:خلاف شرع تعویذ‘ گنڈے‘ ٹونے ٹوٹکے مت کرو (مشکوٰۃ) بچہ پیدا ہونے کے وقت سنت-۱: جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان...

read more

حقوق العباد کے متعلق سنتیں

حقوق العباد کے متعلق ہدایات اور سنتیں اولاد کے حقوق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ: ٭ مسلمانو! خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتائو کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔۔۔۔ ٭ جو مسلمان اپنی لڑکی کی عمدہ تربیت کرے اور اس کو عمدہ تعلیم دے اور...

read more

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں آپ خوشبو کی چیز اور خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے اور کثرت سے اس کا استعمال فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔۔۔۔ (نشرالطیب)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں بھی خوشبو لگایا کرتے تھے۔۔۔۔ سونے سے بیدار ہوتے تو قضائے حاجت سے...

read more