سوشل میڈیا پر تحریر کی چوری …. ایک سنگین مسئلہ ہے (160)۔
عصر حاضر میں، سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں لوگ اپنے خیالات، تجربات اور علم کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ لیکن اس سہولت کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ بھی سامنے آیا ہے اور وہ مسئلہ ہے تحریرکی چوری۔
یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی دوسرے کی تحریر کو بغیر اجازت یا بغیر حوالہ کے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ شرعی اعتبار سے بھی قابل مذمت ہے۔اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی تحریر یا مواد سوشل میڈیا پر پبلک ہو جاتا ہے تو وہ ہر کسی کی ملکیت بن جاتا ہے، اور کوئی بھی اسے اپنی مرضی سے استعمال کرسکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر نہایت غلط ہے۔ کسی بھی تحریر کو عام کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس کے حقوق بھی عام ہوگئے ہیں۔ ہر تحریر کے پیچھے ایک مصنف کی محنت، وقت، اور تخلیقی صلاحیتیں شامل ہوتی ہیں، اور یہ حقوق ہمیشہ مصنف کے پاس محفوظ رہتے ہیں۔
تو دوستو! ہمیشہ ہر تخلیق کی ہوئی چیز کے حقوق پس پشت محفوط ہوتے ہیں ۔ آپکو محدود اختیارات کے لئے وہ چیز فراہم کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر، جب حکومت ایک سڑک بنا کر عوام کے استعمال کے لیے فراہم کرتی ہے، تو یہ سڑک پبلک کے لیے ہوتی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی شخص اس سڑک کو اکھیڑ کر اپنے گھر لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح، جب کوئی شخص کتاب لکھتا ہے اور اسے بازار میں نشر کرتا ہے، تو کتاب خریدنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے اپنی مرضی سے اب شائع کر سکتے ہیں۔ بلکہ، یہ کتاب صرف اور صرف آپکے استعمال کے لیے ہے، نہ کہ تجارتی مقاصدکے لیےاور دیگر عوامی مفاد کےلئے۔
سوشل میڈیا پر اس وقت میرے مشاھدہ کے مطابق سب سے بڑی چوری تحریرات کی ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص اپنی تحریر سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہےتو یہ اس کی ملکیت میں ہی رہتی ہے، اور اس کا نام شامل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر کوئی اس تحریر کو بغیر حوالہ کے آگے بڑھاتا ہے، تو وہ دراصل چوری کا مرتکب ہوتا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگ اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ہر پبلک چیز آپ کی کامل ملکیت میں نہیں آ جاتی، بلکہ اس کے کچھ حدود و قیود ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر تحریرکی چوری ایک سنگین مسئلہ ہے، اور اس کا حل صرف یہ ہے کہ ہم ہر تحریر کو مصنف کے نام کے ساتھ آگے بڑھائیں، اور اس کا حق ادا کریں۔آخری بات یہ کہ اگر ہمیں کوئی ایسی تحریر موصول ہو جو ہمارے لیے فائدہ مند ہو، تو ہم اس کے بارے میں تحقیق کریں کہ آیا یہ پوسٹ بھیجنے والے کی اپنی ہے یا نہیں۔ اگر وہ انکار کرے، تو بہتر ہے کہ ہم اسے آگے نہ بڑھائیں کیونکہ بغیر اسم مصنف کے یہ تحریر چوری شدہ کہلائے گی اور مصنف کی حق تلفی بھی اسمیں شامل ہوجائیگی ۔ جو کہ ایک جرم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر تحریرکی چوری ایک اخلاقی اور شرعی مسئلہ ہے، جس سے بچنے کے لیے ہمیں محتاط رہنا چاہیے اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیےاور اُنکی محنت کی قدر کرنی چاہئے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

