سلف صالحین اکابر کون؟
عموماً ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ سلف صالحین اکابر اور بڑوں پر دینی امور میں اعتماد کی جو تاکید کی جاتی ہے اس سے مراد کون حضرات ہیں۔ سلف صالحین کا اطلاق کن حضرات پر ہوگا۔ بڑوں سے کون مراد ہیں۔ اکابر کون حضرات ہیں جن پر اعتماد اور اتباع کا ذکر ہورہا ہے۔ لفظی ترجمہ تو یہی ہے کہ گزرے ہوئے نیک لوگ، یہ ایک اصطلاح ہے اصل معیار وہی ہے جو اوپر گزر چکا کہ ما انا علیہ واصحابی کہ جس طریق پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں۔
پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی پوری زندگی مکمل طور پر محفوظ ہے۔ حدیث شریف میں ذکر کئے گئے معیار پر یہ جانچا جائے کہ کون اس معیار پر پورا اترتا ہے بس وہی حضرات قابل اتباع اور قابل اعتماد ہوں گے۔ اورسلف صالحین کہلانے کا مصداق ہوں گے۔ لیکن اس میں مطلقاً عمومیت نہیں قدرے تخصیص کی ضرورت ہے۔
یعنی ما انا علیہ واصحابی کے معیارکے ساتھ عہد رسالت سے قربت بھی سلف صالحین کے لئے ضروری معیار ٹھہرے گا کیونکہ عہد رسالت سے قربت کی بنا پر علم و فہم میں جو برکات ملتی ہیں وہ بعد والوں کو نصیب نہیں ہوسکتیں۔
حکیم ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ بہت مشہور بزرگ گزرے ہیں وہ عالم جوانی میں کسی باغ میں تشریف لے گئے آپ پر ایک عورت فریفتہ تھی وہ بھی موقع کو غنیمت سمجھ کراس باغ میں پہنچ گئی اور ان سے مطلب براری کی درخواست کی۔
یہ منظر دیکھ کر آپ بہت گھبرائے بھاگے اور باغ کی دیوار پر چڑھ کر باہر کود گئے بہت مدت کے بعد ایک بار بڑھاپے میں بطور وسوسہ یہ خیال آیا کہ اگر میں اس عورت کی دل شکنی نہ کرتا اور اس کی خواہش پوری کرنے کے بعد گناہ سے توبہ و استغفار کرلیتا تو اس کی دل شکنی بھی نہ ہوتی اور گناہ بھی معاف ہوجاتا۔
بس اس وسوسہ کا آنا تھا کہ آپ پر گریہ طاری ہوگیا بہت پریشان ہوئے اور سخت ندامت ہوئی کہ جوانی میں تو ہمت کرکے گناہ سے بچ گیا اور اب بڑھاپے میں یہ حال… خواب میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
۔’’اے حکیم! غم نہ کرو جو اس وقت ابتلاء سے بچ گئے وہ میری بعثت سے قریب کا زمانہ تھا جس کی برکت سے تم گناہ میں آلودہ ہونے سے محفوظ رہے اور اب جو بڑھاپے میں اس قسم کا وسوسہ پیدا ہوا یہ بُعد زمانی کی وجہ سے ہے تم اس کا کچھ خیال نہ کرو۔‘‘۔
تو اس قرب زمانی کی بہت بڑی حیثیت اور اہمیت ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین سے فارغ ہوئے تو فرمایا تھا کہ ہم نے ابھی مٹی سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہم نے اپنے قلوب میں ایک تغیر محسوس کیا اور یہ تغیر آقائے نامدار پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کی وجہ سے ظاہر ہوا۔ اس سے قرب زمانی اوران کی برکات کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی لئے متذکرہ بالا وضاحت کے بعد حاصل یہ ہے کہ گزرے ہوئے حضرات جو ما انا علیہ واصحابی اور علمی رسوخ کے معیار کے ساتھ جتنا عہد رسالت و عہد صحابہ سے قریب تر ہوں گے وہ حضرات اتنے ہی سلف صالحین کے لقب کے مصداق ہوں گے۔ کیونکہ قرب زمانی کا علمی کمال، فہم ادراک میں برکت اور دین کی حقیقی تشریح میں بہت بڑا عمل دخل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو امام اعظم شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ان کا دور دوسرے ائمہ کی نسبت عہد صحابہ سے قریب تر پایا جاتا ہے تو علمی رسوخ کے ساتھ قربت زمانی کی بناء پر انہیں یہ مقام و مرتبہ نصیب ہوا۔
