سلامتی کا راستہ
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم جناب عمار خان کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:۔
مضمون کا جو مجموعی طرزِ فکر ہے وہ بندے کو نہایت خطرناک محسوس ہوتا ہے۔ اس طرزِ فکر کے ساتھ انسان کسی وقت کسی بھی بڑی گمراہی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ جب ایک مرتبہ کوئی صاحب فکر جمہور اُمت کے مسلمات سے آزاد ہوکر اپنی راہ الگ اختیار کرلیتا ہے اور یہ تصور کرلیتا ہے کہ وہ ان مسلمات کے بارے میں پہلی بار اصابت فکر کے ساتھ غور کررہا ہے اور چودہ صدیوں میں علماء اُمت اس اندازِ فکر سے محروم رہے ہیں تو اس کے اوپر کوئی روک باقی نہیں رہتی۔ ماضی میں یہی طرزِ فکر نہ جانے کتنی گمراہیاں پیدا کرچکا ہے۔ طہ حسین سے لیکر سرسید تک اور وحید الدین خان صاحب سے لے کر جاوید غامدی صاحب تک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے اپنے وقت میں اس قسم کے طرزِ فکر نے دلائل کا زور بھی باندھا لیکن اُمت اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر رفتہ رفتہ اسے ردّ کرکے اس طرح آگے بڑھ گیا کہ اس کا ذکر صرف کتابوں میں باقی رہ گیا۔ بالخصوص آج کے دور میں جس طرح کے افکار، دین میں تحریف کے درپے ہیں۔ اس کے سوا سلامتی کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ انسان علمائے اُمت کے سوادِ اعظم سے اور جمہور اُمت کے مسلمات سے وابستہ رہے۔ بے شک انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان جمہور علمائے اُمت کے مقابلے میں خود کو معصوم سمجھنے لگے اور یہ سمجھے کہ ان سب سے بیک وقت غلطی ہوئی ہے، مجھ سے نہیں۔ (مجلہ صفدر، فتنہ غامدی نمبر، ص:۴۷)
