سر سید نے ہندوستان میں نیچریت کی بنیاد ڈالی

سر سید نے ہندوستان میں نیچریت کی بنیاد ڈالی

ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ زیادہ تر سر سید ہی نے ہندوستان میں نیچریت کی بنیاد ڈالی تھی گو اس سے پہلے بھی اس خیال کے لوگ تھے مگر بہت کم اس وقت یہ بات نہ تھی جو کالج علی گڑھ کی بنیاد پڑنے کے بعد پیدا ہوگئی اوراس وقت یہ علماء ہی پرالزام تھا کہ یہ سر سید کے اس فعل کو بری نظروں سے دیکھتے ہیں اور ترقی کے مانع ہیں مگر اس تحریک خلافت کے بعد خود وہاں ہی کے تعلیم یافتہ جو آج کل بڑے لیڈر اور عقلاء کہلاتے ہیں۔ ان سب نے یہ تسلیم کرلیا کہ یہ انگریزیت اور دہریت اور نیچریت اس علی گڑھ کالج کی بدولت ہندوستان میں پھیلی ہے۔
اسی کی بدولت لوگوں کے دین و ایمان برباد ہوئے اور اس وقت کہا گیا جب کہ وہاں پر ایک جلسہ قرار پایا تھا اور اس میں حضرت مولانا دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا ان مہربانوں نے اپنے اغراض دنیوی کی وجہ سے حالت مرض میں بھی حضرت مولانا کوآرام نہیں کرنے دیا حکومت اور جاہ کا ایسا بھوت گردن پر سوار ہوا تھا اسی زمانہ میں بعضے ثقہ صورت حضرات کے نام سے بعضے مضامین حضرت مولانا کی طرف نسبت کرکے شائع کئے گئے تھے جس کی مولانا کو بھی خبر نہیں اوپر ہی اوپر گھڑ مڑ کر حضرت کی طرف منسوب کرکے شائع کردیا گیا تھا جس کے جعلی ہونے کا اسی جماعت کے بعض حضرات نے بعد میں اقرار کیا (ملاحظہ ہو اشرف السوانح باب بست وچہارم کا مضمون سادس) یہ دیانت اور تدین ہے پھر اس پر دوسروں پر الزام تھا کہ یہ دشمن اسلام ہیں قوم فروش ہیں۔ سی آئی ڈی سے تنخواہ پانے والے ہیں فاسق فاجر ہیں ان کا قتل تک جائز ہے ان کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز ہے۔
بعض نے تو یہاں تک کہا اگر ہم کو کامیابی ہوگئی اور حکومت مل گئی تو یہ جتنے لوگ تحریک سے علیحدہ ہیں ان کو ہندوستان سے نکال کر باہر کریں گے اور ٹکٹ دلوا کر جہاز میں سوار کرکے کہہ دیں گے کہ انگریزوں کے ساتھ لندن میں جاکر آباد ہوں یہ خدائی کے دعویٰ تھے اچھی خاصی فرعونیت دماغوں میں سمائی ہوئی تھی۔ ملازمتوں کو حرام کہا بدیشی کپڑے کو ناجائز قرار دیا اب سب استعمال کررہے ہیں وہ سور کی چربی اور گائے کی چربی جواس وقت مانع استعمال تھی کہاں گئی۔ یہ ثقہ لوگوں کا حال تھا جس کا درمیان میں ذکر آگیا شروع سر سید کے حال سے ہوا تھا اب اسی کا بقیہ عرض کرتا ہوں کہ وہاں نصوص اور احادیث کا انکار حضور کی معراج جسمانی کا انکار اور کثرت سے خرافات ہانکتے ہیں اس پر بھی معتقدین کہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کا خیر خواہ اور ہمدرد تھا نہ معلوم وہ خیر خواہی اور ہمدردی کون سی قسم کے مسلمانوں اور کون سے اسلام کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عالم میں تشریف لاکر جس اسلام کی تبلیغ کی اورجیسا مسلمان بنایا اس اسلام اور مسلمانوں کی تو اچھی خاصی دشمنی تھی جس وقت سر سید نے اس علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اپنے ایک خاص معتمد کو گنگوہ بھیجا اس کام کیلئے کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرکے مولانا کو یہ پیام پہنچائو کہ میں نے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود وترقی کیلئے ایک کالج کی بنیاد ڈالی ہے دوسری قومیں ترقی کرکے بہت آگے پہنچ چکی ہیں مسلمان پستی کی طرف جارہے ہیں اگر آپ حضرات نے اس میں میرا ہاتھ بٹایا تو میں بہت جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائوں گا جو حقیقت میں مسلمانوں کی کامیابی ہے۔
غرضیکہ سفیر وہ گنگوہ آئے اور حضرت مولانا کے پاس حاضر ہوکر بعد سلام مسنون کے سر سید کا پیام عرض کیا۔ حضرت مولانا نے سر سید کا پیام سن کر فرمایا کہ بھائی ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح اور بہبود اور ترقی کازینہ اللہ اور رسول کے اتباع ہی میں سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی فلاح وبہبود اور ترقی کا زینہ اور بھی کوئی ہے تو اس کے متعلق یہ ہے کہ میری ساری عمر قال اللہ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزری ہے مجھے ان چیزوں سے زیادہ مناسبت نہیں۔
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نام لیا کہ وہ ان باتوں میں مبصر ہیں ان سے ملو وہ جو فرمائیں گے اس میں ہم ان کی تقلید کرلیں گے ہم تو مقلد ہیں یہ صاحب حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملے اور سر سید کا سلام پیام اور حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے جو گفتگو ہوئی تھی اور اس پر حضرت مولانا نے جو جواب دیا تھا سب حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سنادیا گیا حضرت مولانا نے سنتے ہی فی البدیہہ فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کام کرنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ ان کی نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں۔
دوسرے وہ کہ عقل تو ہے مگر اچھی نیت نہیں تیسرے یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل سر سید کے متعلق ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگریہ ضرور کہیں گے کہ عقل نہیں اس لئے کہ جس زینہ سے مسلمانوں کو وہ معراج ترقی پر لے جانا چاہتے ہیں اور ان کی فلاح اور بہبود کا سبب سمجھتے ہیں یہ ہی مسلمانوں کی پستی کا سبب اور تنزل کا باعث ہوگا۔ اس پر صاحب نے عرض کیا کہ جس چیز کی کمی کی شکایت حضرت نے سر سید کے اندر فرمائی ہے اسی کوپورا کرنے کیلئے تو آپ حضرات کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے تاکہ تکمیل ہوکر مقصود انجام کو پہنچ جائے یہ ایسی بات تھی کہ سوائے عارف کے دوسرا جواب نہیں دے سکتا تھا حضرت مولانا نے فی البدیہہ جواب فرمایا کہ سنت اللہ یہ ہے کہ جس چیز کی بنیاد ڈالی جاتی ہے بانی کے خیالات کا اثر ساتھ ساتھ اس میں ضرور ہوتا ہے سو چونکہ سرسید بنیاد ڈال چکے ان کے ہی خیالات کے آثار اس بناء میں ضرور ظاہر ہوںگے اور اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک تلخ درخت کا پودہ قائم کرکے ایک مٹکے میں شربت بھر کر اور ایک مالی کو وہاں بٹھلا کر ان سے عرض کیا جائے کہ اس شربت کو اس درخت کی جڑ میں سینچا کرو سوجس وقت وہ درخت پھول پھل لائے گا سب تلخ ہوں گے واقعی عجیب ہی بات فرمائی۔
میں نے اس تحریک کے زمانہ میں ایک موقع پر کہا تھا کہ تم اب پچاس برس کے بعد سمجھے ہو کہ علی گڑھ کالج کی وجہ سے انگریز یت اور دہریت اورنیچریت پھیلی ہے لوگوں کے دین وا یمان برباد ہوئے اس کو ایک مبصر پچاس برس پہلے کہہ چکے تھے اور اسی سے اس تحریک کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ مولانا نے جوکام کرنے والوں کی تین قسمیں بیان فرمائی تھیں ایک وہ کہ نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں دوسرے یہ کہ عقل تو ہے مگر نیت اچھی نہیں تیسرے یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل تو اس تحریک حاضرہ کا جو بانی اعظم ہے وہ دونوں صفات کاجامع ہے نہ نیت اچھی نہ عقل ۔
اور ایک تیسری صفت مزید بلکہ دین بھی نہیں۔ سر سید میں تو صرف ایک ہی کمی فرمائی تھی کہ عقل نہیں تو اس کی نحوست کا تو یہ اثر ہوا جو تم کو بھی تسلیم ہے اور جس میں یہ تینوں کمی ہوں اس کی ڈالی ہوئی بنیاد میں تو کہاں خیر اور کہاں دین و ایمان اور کہاں فلاح اور بہبود حضرت مولانا کا یہ فرمانا کہ بانی کا اثر بنا میں ضرور ہوتا ہے یہ اس تحریک میں کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوچکا کہ جو بھی شریک ہوااسی رنگ میں رنگا گیا بڑوں بڑوں کے زہد اورتقویٰ دین وایمان نماز روزہ سب بانی پر نثار ہوگئے ایک مولوی صاحب نے تو یہاں تک اثر لیا کہ بانی کی شان میں یہ شعر لکھ دیا کہ
عمرے کہ بایات واحادیث گذشت
رفتی ونثار بت پرستے کردی انا للہ

Most Viewed Posts

Latest Posts

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اجتہاد فی الدین کا دور ختم ہو چکا توہو جائے مگر اس کی تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا‘ تقلید ہر اجتہاد کی دوامی رہے گی خواہ وہ موجودہ ہو یا منقضی شدہ کیونکہ...

read more

طریق عمل

طریق عمل حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اس لچر اور لوچ عذر کو حیلہ بناتے ہیں ورنہ ہمیشہ اطباء میں اختلاف ہوتا ہے وکلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے مگر کوئی شخص علاج کرانا نہیں چھوڑتا مقدمہ لڑانے سے نہیں رکتا پھر کیا مصیبت ہے کہ دینی امور میں اختلاف علماء کو حیلہ...

read more

اہل علم کی بے ادبی کا وبال

اہل علم کی بے ادبی کا وبال مذکورہ بالا سطور سے جب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اہل علم کا آپس میں اختلاف امر ناگزیر ہے پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم...

read more