سختی اور پابندی کا فرق
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ اصول صحیحہ کی پابندی کوسختی کہنا سراسر زیادتی ہے کیونکہ جو قانون اپنی ذات میں تو سہل ہو مگر اس کی پابندی سختی سے کرائی جاتی ہو اس کو سخت نہیں کہا جا سکتا۔ دیکھئے نماز کے سارے ارکان بہت ہی سہل سہل ہیں اور بحالت عذر تو اس میں اور بھی سہولتیں اور گنجائشیں رکھ دی گئی ہیں لیکن اس کی پابندی البتہ بہت تختی کے ساتھ کرائی جاتی ہے تو اس صورت میں حکم شریعت کو سخت نہیں کہا جائے گا بلکہ حکم عدولی کرنے والے ہی کو ملامت کی جائے گی کہ ارے نالائق ادائے نماز میں اتنی تو سہولتیں رکھ دی گئی ہیں اور پھر بھی تو کوتاہی کرتا ہے۔ اس لئے ترک نماز پر آخرت کی بھی سخت سخت وعیدیں ہیں اور دنیا میں بھی سخت سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں یہاں تک کہ بعض ائمہ کے نزدیک تو تارک صلوۃ واجب القتل ہے۔ نیز فرمایا کہ اگر اصول تو ہوں نرم لیکن ان کی پابندی کرائی جائے سختی کے ساتھ تو یہ سختی نہیں مضبوطی ہے جیسے ریشم کا رسا۔ نرم تو ایسا کہ چاہے اس میں گرہ لگا لو لیکن ساتھ ہی مضبوط بھی اتنا کہ اگر اس سے ہاتھی کو بھی باندھ دیا جائے تو وہ بھی اس کو نہیں توڑ سکتا لہذا ریشم کے رسے کو سخت نہ کہا جائے گا بلکہ مضبوط کہا جائے گا۔ البتہ لوہے کی زنجیر کو سخت کہا جائے گا کیونکہ لوہا اپنی ذات ہی میں سخت ہے۔ اگر زنجیر کسی کے پیروں میں ڈال دی جائے تو وہ تو پیروں ہی کو زخمی کر دے بخلاف ریشم کے رسے کے کہ پابند رکھنے کی صفت میں تو وہ لوہے کی زنجیر سے بھی بڑھ کر ہے لیکن اس سے پاؤں زخمی نہیں ہوتے بلکہ بہت آرام میں رہتے ہیں اور اگر کوئی اپنے آپ کو بلا ردو کد اس کا پابند ر کھے اور خواہ مخواہ اس کی پابندی سے اپنے آپ کو نکالنے کی فضول جدو جہد نہ کرے تو کشاکشی کی دکھن تک بھی نہ ہو۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد ز صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

