ذہنی غلامی کے بغیر چارۂ کار نہیں
ظاہر ہے ک ان جذبات کو بطور عقیدہ ذہن میں رکھ لینے کے بعد صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر جرح و تنقید کا تو کوائی سوال ہی ذہنوں میں نہیں آسکتا البتہ ذہنی غلامی کا سوال ضرور پیدا ہوسکتا ہے۔ سو اس منقول دین میں اوّلین طبقہ کا ہر آدمی کلیۃ محتاج ہوگا۔ روایت میں بھی اور درایت میں بھی ، تاویلات میں بھی اور تعلّم و تزکیہ میں بھی اجمال میں بھی اور تفسیر میں بھی آخر اس کی ’’ذہنی غلامی‘‘ نہ کرے گا تو کیا کرے گا۔ اور جبکہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہی کو اُمت کے مختلف فرقوں کے حق و باطل کا معیار بھی قرار دے دیا اور معیار ہونے کی شان یہ ہے کہ انہی سے حق و باطل ممتاز ہوتا ہے اور انہی سے ملتا بھی ہے اور اس صورت میں بجز ’’ذہنی غلامی‘‘ کے چارۂ کا ربھی کیا ہے۔ ورنہ بحق ہونے کے بجائے آدمی مبطل ہونا گوارہ کرے۔
روافض ، خوارج ، معتزلہ اور دوسرے انہی کے ہم رنگ فرقے مبطل ہی اس لئے قرار پائے کہ انہوں نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھا۔ ان کی ’’ذہنی غلامی‘‘ پر راضی نہ ہوئے اور ان پر طعنہ زنی اور نکتہ چینی سے باز نہ آئے۔ جس سے صاف لفظوں میں اﷲتعالیٰ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے روکا تھا اور فرمایا تھا کہ میرے صحابہ رضی اﷲ عنہم پر سب وشتم نہ کرو۔
میرے صحابہ کے بارے میں اﷲتعالیٰ سے ڈرو۔ جس میں نکتہ چینی اور گرفت اور نقد و تبصرہ سب ہی کچھ زیر ممانعت آجاتا ہے۔ وہ نجوم ہدایت ہیں تو ان سے راہ پائی جائے گی۔ انہیں راہ دکھائی نہیں جائے گی۔ ان کی اقتداء کی جائے گی۔ ان کی غلطیاں پکڑ پکڑ کر ان سے اقتداء کرائی نہیں جائے گی۔
اس سے واضح ہے کہ جو لوگ اپنے نقدو تبصرہ کا دائرہ ان آباء صالحین تک وسیع کر دینا چاہتے ہیں اور بقول شخصے ’’بازی بازی باریش ، باباہم بازی‘‘ کے ڈھنگ پر ان پر جرح و تنقید جائز سمجھتے ہیں۔ تو یہی ایک چیز ان کے مسلک کے باطل ہونے اور مخالف اہل سنت والجماعت ہونے پر ان سے اعتزال کر لینے کی کافی دلیل ہے۔
اب خواہ کوئی نیا فرقہ بن جائے یا پرانے مبطل فرقوں کی ’’ذہنی غلامی‘‘ میں مبتلا ہو کر انہیں کا مقلد ہو۔ بہرحال وہ اہل حق میں سے نہ ہوگا۔
