دین کا ہر خدمتگار…. اپنی اپنی جگہ پر اہم ہے (192)۔

دین کا ہر خدمتگار…. اپنی اپنی جگہ پر اہم ہے (192)۔

اسلام ایک جامع دین ہے۔اس دین کا ہر پہلو، ہر طبقہ اور ہر علم کا شعبہ اپنی جگہ منفرد اور اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے انسانوں میں مختلف صلاحیتیں اور مہارتیں تقسیم کی ہیں۔ کچھ کو علم دین میں مہارت عطا کی تو کچھ کو تلاوت میں، کچھ کو وعظ و نصیحت کا مرتبہ عطا کیا تو کچھ کو تقابل ادیان کا فہم بخشا۔ ان سب کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے اور ہر شخص اسی اعتبار سے دین کی خدمت کر رہا ہے۔
مگر افسوس کہ ہمارے معاشرتی رویے میں کچھ ایسی کمزوریاں موجود ہیں جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر برصغیر کی روایت میں، جب کسی شخص سے عقیدت پیدا ہوتی ہے تو اسے دین کامکمل محور و مرکز اورہر میدان کا مرجع سمجھ لیا جاتا ہے۔ گویا وہی دین اسلام کا مکمل نمائندہ ہے۔ گویایہ بزرگوں سے عقیدت میں شدت پسندی ہے۔
یاد رکھیں!دین اسلام مختلف علوم و فنون پر مبنی ہے، اور ہر فن کے ماہر کو اس کے شعبے میں عزت و احترام دینا چاہیے۔ مثلاً قاری حضرات قرآن کی تلاوت میں ماہر ہیں، جبکہ مفسرین قرآن کریم کی تفسیر میں، اسی طرح علمائے کرام مدارس میں تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں، مفتیان کرام شرعی مسائل کی تشریح کرتے ہیں، اور تصوف کے میدان میں اہل اللہ لوگوں کی روحانی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ ان سب شعبہ جات میں ایک توازن کی ضرورت ہے، تاکہ ہر شخص اپنی مہارت کے مطابق دین کی خدمت کرتا رہے۔
عقیدت کا غلو یعنی عقیدت میں شدت یہ ہوتی ہے کہ جب کسی ایک شعبے کے نیک اور دیندار شخص کو ہر فن مولا سمجھ لیا جاتا ہے۔ لوگ اس سے ہر سوال پوچھتے ہیں، چاہے وہ فقہی مسئلہ ہو یا روحانی اصلاح کا معاملہ، اور یہاں تک کہ قرآن کی تلاوت کے آداب بھی اسی سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف اس شخص پر بوجھ بڑھتا ہے بلکہ عوام الناس کو بھی صحیح راہنمائی نہیں ملتی۔
ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جس کے پاس جو مہارت ہے، اسی دائرے میں اس سے رجوع کرنا چاہیے۔مثلاً مسائل کا حل مفتی حضرات سے پوچھیں، تفسیر کا علم مفسرین سے سیکھیں، اور قرآن کی صحیح تلاوت کے لیے قراء حضرات سے مدد لیں۔ اسی طرح، اگر کسی کو تصوف کا شوق ہو تو اہل اللہ سے رجوع کریں، اور تقابل ادیان کا علم حاصل کرنا ہو تو اس میدان کے ماہرین سے رہنمائی لیں۔
اس فرق کو سمجھے بہت ضروری ہے کہ اگر کوئی شخص مفتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اصلاح نفس میں بھی ماہر ہو۔اگر کسی کو خلافت مل گئی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مسائل کا فتویٰ بھی دے سکے۔ اگر کوئی قاری ہے تو یہ سمجھنا کہ وہ ہر فقہی مسئلہ کا حل بھی بتا سکے گا، ایک غلط فہمی ہے۔ ہمیں ہر شخص کو اس کے میدان میں رہتے ہوئے احترام اور عزت دینی ہوگی۔
کچھ لوگ تبلیغی جماعت میں بہت سارا وقت لگانے والے کو بھی عالم فاضل اور مفتی سمجھ کر مسائل پوچھنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگر کسی کے دو سال ،تین سال یا دس سال متواتر بھی اللہ کے راستے میں لگ جائیں تب بھی اُسکو فتویٰ دینے کی اجازت نہیں جب تک کہ وہ مطلوبہ علوم میں مہارت حاصل نہ کرلے ۔
ہمیں یہ آگاہی پھیلانی ہوگی کہ دین اسلام کا ہر شعبہ اپنی جگہ اہم ہے اور ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں کام کر رہا ہے۔ہمیں  ہر شعبے کے ماہرین سے ان کی مہارت کے مطابق رجوع کرنا چاہیے، تاکہ وہ لوگ بھی دین کی خدمت بہتر طریقے سے کرسکیںاور ہمیں بھی صحیح راہنمائی مل سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more