دینِ اسلام کو ہدفِ تنقید بنانے کے چندبنیادی اسباب وعلامات
دینِ اسلام کے متعلق منفی اور تنقیدی ذہنیت کی درج ذیل بارہ علامات ہیں:۔
۔1۔۔علومِ قرآن وسنت سے ناواقفیت
قرآن وسنت کو صحیح طور پر جاننے‘ سمجھنے اور اس سے دین وشریعت کے مسائل استنباط کرنے کے لیے عربی زبان کے تقریباً اٹھارہ مختلف علوم میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے چند علوم یہ ہیں: علمِ اصولِ دین‘ علمِ اسبابِ نزول‘ علم ناسخ ومنسوخ‘ علمِ قرأت ‘ علمِ حدیث‘ علمِ اصولِ حدیث‘ علمِ فقہ‘ علمِ اصولِ فقہ‘ علمِ بلاغت(معانی‘ بیان‘ بدیع)‘ علم صرف‘ علمِ نحو‘ علمِ لغت‘ علمِ اشتقاق‘ لیکن گمراہ عناصر ان تمام بنیادی اور اہم علوم سے ناواقف ہوتے ہیں‘ چند اردو کتابوں کے لقطات کو معلوماتِ عامہ کا ذخیرہ وافرہ سمجھ لینا اور قرآن وسنت کو تختۂ مشق بنانے کے لیے آمادۂ پیکار ہونا ضلالت کی کھلی مثال ہے۔ ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
۔2۔۔۔قرآن کریم کی متواتر قراء ت کو فتنہ کہنا یا ان کا انکار کرنا
واضح رہے کہ تلاوت کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو متعدد قرأتوں میں نازل فرمایا‘ البتہ قراء توں کے اس اختلاف سے آیات کے مجموعی معنی میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوتی‘ لیکن تلاوت اور ادائیگی کے طریقوں میں فرق ہوجاتا ہے‘ اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے تلاوت میں آسانی پیدا ہوگئی۔
اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت وصداقت اور اس کے بعینہ محفوظ رہنے پر اس اختلافِ قراء ت کا کوئی ادنیٰ اثر بھی مرتب نہیں ہوتا‘ لیکن بعض گمراہ عناصر ان متواتر قراء توں کا بھی انکار کرتے ہیں‘ جبکہ اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ قرآن کریم کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں‘ وہ سب صحیح ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت ان میں سے ہر ایک کے مطابق کی جاسکتی ہے‘ لیکن گمراہ عناصر ان متواتر قراء ات کو عجمی فتنہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں۔
۔3۔۔۔سنت وحدیث
سنت و حدیث میں غلط اور فاسد تاویلات کرکے ان کا انکار کرنا‘ یا سنت وحدیث کو عقل یا فطرت کے خلاف کہنا‘ یاسنت وحدیث کو تاریخ یا عرب سماج اور کلچر کے ساتھ خاص کرکے منکرینِ حدیث کو تقویت پہنچایا‘ یا احادیث کے مقابلے میں تاریخ کو زیادہ اہمیت وترجیح دینا‘ یا قرآن وسنت سے استدلال کرنے میں محض عربی ادب ولغت پر انحصار کرنا۔
۔4۔۔۔صحیح احادیث کا اپنی ذاتی رائے یا عقل کی وجہ سے انکار یا رد کرنا
اسی ضمن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق وامتیاز نہ کرنا‘ یعنی ضعیف حدیث کو جھوٹی‘ من گھڑت اور موضوع روایت کا درجہ قرار دے دینا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ضعیف‘‘علمِ اصول حدیث کی ایک اصطلاح ہے‘ اردو دان حضرات اسے لاغروکمزور پر قیاس کرکے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ’’ضعیف‘‘سے مراد جھوٹی یا من گھڑت روایت ہے‘ حالانکہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف اور فن اصولِ حدیث سے ناواقفیت کی بنا پر ہے‘ کیونکہ جمہور علماء ومحدثین کے نزدیک ضعیف حدیث مطلوبہ شرائط کے ساتھ قابلِ حجت ہے۔ متابع‘ مُضاعد‘ فروعِ دین یا فصائلِ اعمال میں محدثین کے ہاں قابلِ عمل ہے‘ البتہ موضوع یعنی جھوٹی اور من گھڑت روایت کسی بھی حالت میں لائقِ عمل نہیں ہے‘ صحیح وضعیف کے اطلاق کرنے یا انکار کرنے میں اردو کے استعمال کا فرق ملحوظ رکھنا بھی بہت اہم ہے۔
اردو کے استعمال میں ہر اس بات کو جو اہل فہم وعقل کے نزدیک قابل اعتبار ہو‘ کسی اعتراض کے بغیر صحیح کہہ دیاجاتا ہے‘ خواہ محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی ہلکے سے ہلکے معیار پر بھی اس کو صحیح نہ کہاجاسکے‘ اس کے مقابلہ میں صحیح نہ ہونے کا مطلب اردو میں یہ ہوتا ہے کہ وہ بات ناقابلِ اعتبار ہے۔
لیکن محدثین کی اصطلاح میں صحت کے لیے خاص خاص شرائط ہیں‘ اور پھر اس کے اندر بھی مختلف مراتب ہیں‘ اس کے بعد پھر حسن کا درجہ ہے اور اس کے بھی کئی مدارج ہیں‘ اس کے بعد پھر ضعیف کا درجہ ہے اور اس میں بھی مراتب کا یہی حال ہے‘ جن میں سے ضعیف حدیث کبھی کبھی مقبول بھی شمار ہوجاتی ہے‘ اس لحاظ سے محدثین کی اصطلاح کے مطابق کسی حدیث پر یہ حکم دیکھ کر کہ وہ صحیح نہیں ہے۔
اس کو مردود یا جھوٹا سمجھ لینا یہ بالکل غلط ہوگا۔ اس کے برخلاف اردو کے محاورہ میں اس کے صحیح نہ ہونے کا یہی مطلب سمجھاجائے گاکہ وہ ناقابل اعتبار‘ مردود اور جھوٹی ہے۔ محدثین کی اصطلاحات سے ناواقف لوگوں کو ہمیشہ یہاں یہ مغالطہ لگ سکتا ہے کہ یہ روایات سب بے سروپا اور لغو ہیں‘ بلکہ اسی مغالطہ میں بعض اچھے خاصے تعلیم یافتہ سمجھ دار لوگ بھی مبتلا ہوسکتے ہیں اور ان کو بھی اس نکتہ پر غفلت کا سامنا ہوسکتا ہے کہ محدث کے کسی حدیث کی صحت سے انکار کا مطلب وہ نہیں ہے جو اُردو محاورے میں کسی حدیث کی صحت کے انکار کا مطلب سمجھا جاتا ہے۔
اُصولِ حدیث میں اس کی بھی تصریح ہے کسی حدیث پر کسی محدث کے ضعف کا لگا دینے سے اس حدیث کا مطلقاً ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا‘ بلکہ بعض اوقات وہ حکم صرف اس اسناد کے لحاظ سے ہوتا ہے جو اس وقت اس محدث کے سامنے ہوتی ہے۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ ایک ہی حدیث کو ایک اسناد کے لحاظ سے ضعیف کہہ دیاجائے اور دوسری اسناد کے لحاظ سے وہ قوی ہو‘ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض حدیثوں پر ضعیف کا حکم لگایا ہے‘ حالانکہ خارج میں وہ صحیح اسناد سے ثابت ہے‘ یہاں ایک ناواقف شخص تو حیرت میں پڑجاتا ہے‘ مگر صاحبِ فن سمجھ لیتا ہے کہ امام موصوف رحمہ اللہ کا یہ حکم صرف اس خاص اسناد پر ہے۔
۔5۔۔۔اسلاف دشمنی
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم‘ تابعین رحمہم اللہ‘ تبع تابعین رحمہم اللہ اور متقدمین علماء اور ان کے فہم اسلام سے نہ صرف یہ کہ بدگمانی پیدا کرنا‘ بلکہ وقتاًفوقتاً ان عظیم ہستیوں پر اشاروں اور کنایوں میں لعن طعن اور ملامت کرتے رہنا۔اس طرزِ عمل میں پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف صالحین کے خلاف بدزبانی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو اسلام کے ساتھ مخلص نہیں سمجھاجاتا ہے اور اپنے موجودہ حالات وواقعات کا ذمہ دار یا موردِ الزام ان بزرگ ہستیوں کو ٹھہرادیاجاتا ہے۔ یہ افسوس ناک رویہ درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربِ قیامت کی علامتوں میں ارشاد فرمایا ہے:’’ولعن آخر ھٰذہ الامۃ اولھا‘‘۔یعنی ’’اُمت کے بعد میں آنے والے لوگ گزشتہ لوگوں(اسلاف اور بزرگوں) پر لعن طعن کریں گے۔‘‘ایک اور حدیث میں ایسے لوگوں کو ’’رویبضۃ‘‘فرمایاگیا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ’’رویبضۃ‘‘سے کیا مراد ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ نااہل اور گھٹیا آدمی جو جمہور کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔‘‘۔
۔6۔۔۔سلف صالحین کے بجائے اعداء اسلام اور مستشرقین کی ڈگر پر چلنا
یعنی دین وشریعت کے ہر حکم کو تحقیق وریسرچ کے عنوان سے فقط اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر تولنا پرکھنا‘ یا اعتراض اور شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھنا‘ قرآن وسنت اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مجروح کرنا‘ واضح صداقتوں کا انکار کرنا‘ غلط فہمیوں کو جگہ دینا‘ دین اسلام اور سیرت رسول کے بارے میں غلط تاثر پھیلانا‘ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل اس کے متعلق ازخود ایک موقف قائم کرکے پھر اس کے لیے کمزور سے کمزور روایات ڈھونڈنا اور ان سے غلط استدلال اور معنی اخذ کرنا‘ دسیسہ کاری اور افتراء پردازی سے کام لینا‘ تحقیق اور ریسرچ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف علمی نظریاتی پروپیگنڈہ کرنا۔
۔7۔۔۔شذوذوتفرد
دینِ اسلام یعنی قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر میں جمہور علماء امت کے اجماع واتفاق کو رد کرکے اس کے مقابلہ میں انفرادی ترجیحات اور تفردوشذوذ کو فکر وعمل کی بنیاد بنانا‘ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:۔
۔’’علیکم بالجماعۃ۔‘‘یعنی ’’تم جماعت کو لازم پکڑو۔‘‘اور ارشادِ نبوی ہے:’’لایجتمع امتی علی الضلالۃ‘‘’’یعنی میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔‘‘اسی طرح ایک حدیثِ نبوی میں ارشاد ہے:’’اتبعواالسوادالاعظم من شذ شُذ فی النار‘‘یعنی ’’بڑی اکثریت(اجتماعیت) کی پیروی کرو‘ جس نے (تنہا)الگ راہ اختیار کی وہ جہنم میں جاگرا۔‘‘حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہی سے حفاظت اجتماعیت میں ہے۔
۔8۔۔۔ حدوث وابتداع
جن اُمور کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو‘ یعنی قرآن مجید اور سنت رسول میں اس کا ثبوت نہ ملے‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو‘نہ فعلاً‘ نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘ تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کے زمانہ میں بھی اس کا وجود نہ ہو‘ اور نہ ہی اس کی نظیر ان تینوں زمانوں میں پائی جائے‘ اور شریعت کے ماٰخذ(قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ قیاس)سے بھی اس کا ثبوت نہ ملے اور اس کو دین کا کام سمجھ کر کیاجائے یا چھوڑاجائے‘ خواہ اس کا موجد کوئی بھی کیوں نہ ہو۔
دوسرے الفاظ میں مقاصدِ شرعیہ کو بدل دینا‘ یعنی غیرمقصود کو مقصود بنالینا‘ یا مقصود کو غیرمقصود بنالینا‘ حدیث رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) ہے:۔
’’من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھوا رد۔‘‘
یعنی’’جس شخص نے ہمارے اس دین میں ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود(قابل رد) ہے۔‘‘گویا کہ دین کے نام پر بے دینی گھڑ کے اُسے عام کرنا ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے‘ اس پر تنبیہ کی ضرورت ہے۔
۔9۔۔۔ ’’میں صحیح باقی سب غلط‘‘۔
سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ اور متقدمین جمہور علماء کے فہم اسلام کو یکسر غلط قرار دینا‘ گویا نزولِ اسلام اور اس کے بعد کے قریب ترین زمانے میں ان جیسے بلند پایہ لوگ دین کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے‘ اور ان کے مقابلہ میں اپنی خودساختہ غلط رائے اور ناقص فہم کو صحیح اور برحق سمجھنا اور اُسے عین قرآن وحدیث باور کرانا‘ یعنی اپنی تحریفات‘ ناقص آراء اور خواہش پرستی کو قرآن وحدیث کا نام دینا‘ اس طرح اُمت کی اجتماعیت میں افتراق وانتشار‘ فرقہ واریت اور تفرقہ بازی پیدا کرنا۔ واضح رہے کہ دین میں بلاشبہ کتاب وسنت اصل ہیں‘ اس کا کوئی منکر نہیں‘ مگر اس کے باوجود ہم نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یکسر نظرانداز کرسکتے ہیں اور نہ تابعین و تبع تابعین رحمہم اللہ کو‘ اور نہ ائمہ دین‘ فقہاء اسلام اور محدثین کو۔ کتاب وسنت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے کے لیے بہرحال ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘ تابعین رحمہم اللہ ‘ ائمہ دین اور فقہاء اسلام یعنی امت کے جمہور نے دین کو جس طرح سمجھا ہے اور اس کے بارے میں جو ان کی رہنمائی ہے وہی اصل دین ہے۔ اس کے برعکس جو مفہوم ومعنی ہم اپنی ناقص رائے سے متعین کریں گے وہ دین نہیں کہلائے گا‘ کیوں کہ جن واسطوں سے الفاظ ہم تک پہنچے ہیں اور ان کی حفاظت کا ہم اعتقاد رکھتے ہیں‘ان الفاظ کے معانی کے لیے بھی ان واسطوں پر اعتماد ضروری ہے۔ اسلاف سے ہٹ کر اگر ہم نے اپنی عقل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی تو دین ایک تماشا بن جائے گا۔
۔10۔۔۔فتنہ پردازی
اصولِ دین یا اسلامی تحقیق کے اصول وضوابط کو جانے بغیر جدید تحقیق وریسرچ یا عصرحاضر کے تقاضوں کے نام پر وقتاً فوقتاً مختلف علمی‘ نظریاتی اور فکری فتنے پھیلاتے رہنا‘ جس میں عملی نتیجہ اور حاصل‘ بحث برائے بحث کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو‘ موجودہ زمانہ میں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اس کی واضح مثال ہیں‘ اس فتنہ پردازی میں سب سے آسان اور مشہور طریقہ یہ چل پڑا ہے کہ ’’خالِف تُعرف‘‘یعنی متفقہ اور مسلمہ دینی معاملات یا اسلاف ومتقدمین کی مخالفت کرو اور مشہور ہوجائو۔
۔11۔۔۔حقائق کو مسخ کرنا
محض عقلی‘ قیاسی اور اَٹکل پچو باتوں کی بنیاد پر حقائقِ واقعی کو مسخ کرکے اور بگاڑ کر پیش کرنا‘ اور غیرواقعی اُمور کو واقعی‘ اور واقعی اُمور کو غیرواقعی بنادینا‘ جس کے نتیجے میں دیگر خرابیوں کے ساتھ بناوٹ‘ تصنُع اور خودساختہ پن کو ترویج اور فروغ ملتا ہے۔ اور ایسا عموماً دنیا کی محبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
جیسا کہ حضرت محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:۔
۔’’جب دنیا کی محبت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے حصول کے لیے عام ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں‘ حلال ہوں یا حرام ہوں اور جب یہ حالت ترقی کرجاتی ہے تو پھر اس کے حصول کے لیے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی‘ بے حیائی‘ بے رحمی ناانصافی سب آجاتی ہیں اور رفتہ رفتہ طبیعت مسخ ہوجاتی ہے اور حقائق معکوس ہوجاتے ہیں‘ صحیح کو غلط سمجھنے لگتا ہے اور غلط کو صحیح‘ حق کو باطل اور باطل کو حق‘ حق تعالیٰ کا ارشاد صادق آجاتا ہے:۔
’’فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور۔‘‘(الحج:۴۶)
یعنی ’’سر کی آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں‘ دل کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔‘‘۔
اس لیے حدیث نبوی میں یہ ارشاد ہے کہ:’’حب الدنیا راس کل خطیئۃ۔‘‘(مشکوٰۃ‘ کتاب الرقاق‘ الفصل الثالث‘ ص:۴۴۴‘ط:قدیمی)یعنی ’’دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔‘‘(بصائروعبر‘ج:۱‘ص:۱۱۴‘ ط: مکتبہ بینات‘ کراچی)
۔12۔۔۔عجب‘ خودپسندی‘ تکبر اور تعلی کا اظہار
یعنی اپنی خودساختہ خیالی رائے کو حتمی اور قطعی انداز میں اس طرح بیان کرنا کہ گویا تمام دنیا میں حق اور سچ صرف اسی بات میں منحصر ہے جو میں نے سمجھا اور لکھا۔ اسی طرح اجماعِ امت کے مقابلہ میں اپنی باطل اور غلط رائے کو اونچا کرنا اور جمہور امت کی متفقہ بات کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا‘ کسی بھی اجماعی اور متفقہ مسئلہ کی تردید کرتے ہوئے یوں کہنا کہ شروع سے لے کر آج تک‘ یا قرآن وسنت کے تفصیلی مطالعہ کے بعد‘ یا متقدمین سے لے کر متاخرین تک کسی کو بھی مطالعہ کرلیں‘ کسی کے ہاں بھی یہ بات نہیں ملے گی۔
گویا کہ چودہ سو سالوں میں جتنا بھی علمی وتحقیقی سرمایہ اُمت نے جمع کیا‘ وہ سب کا سب بیک جنبشِ قلم رد کردیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ پوری اُمت کو ان فتنوں اور فتنہ پردازوں سے محفوظ فرمائے۔آمین۔(مضمون مولانا محمد عمر انور صاحب مدظلہ)
