دُعا سے متعلق سنتیں

دُعا سے متعلق سنتیں

اللہ تعالیٰ کو بندوں کا دُعا کرنا بہت پسند ہے۔ دُنیا میں کسی شخص سے بار بار کچھ نہ کچھ مانگا جاتا رہے تو چاہے وہ کتنا بڑا سخی ہو۔ بالآخر اُکتا کر ناراض ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے بندہ جتنا زیادہ مانگے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اتنے ہی خوش ہوں گے بلکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے مانگتا نہیں اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں۔
پھر یہی نہیں کہ دُعا اپنے مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بلکہ وہ ایک مستقل عبادت ہے۔ یعنی دُعا خواہ اپنی ذات اور دنیوی مقصد کے لیے مانگی جائے، وہ بھی عبادت شمار ہوتی ہے اور اس پر ثواب ملتا ہے اور جتنی زیادہ دُعا مانگی جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف تنگی اور مشکلات کے وقت ہی دُعا مانگی جائے بلکہ خوشحالی اور مسرتوں کے وقت بھی دُعائیں مانگتے رہنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ مصائب اور تنگیوں کے وقت اس کی دُعائیں قبول ہوں تو اسے چاہیے کہ خوش حالی کے وقت دُعا کی کثرت کرے۔ (جامع الاصول بحوالہ ترمذی)

دُعائیں قبول ہوتی ہیں

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں وعدہ فرمایا ہے کہ ’’مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ غلط نہیں ہوسکتا، اس لیے اس یقین کے ساتھ دُعا مانگنی چاہیے کہ وہ ضرور قبول ہوگی۔ البتہ قبولیت کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ بعض اوقات وہی چیز مل جاتی ہے جو مانگی گئی تھی اور بعض اوقات وہ چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں بندے کے لیے مناسب یا فائدہ مند نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ بہتر اور مفید چیز دُنیا یا آخرت میں عطا فرما دیتے ہیں۔ اس طرح ہر دُعا کے تین فائدے ہیں: (۱) دُعا کی قبولیت سے مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ (۲) ہر دُعا پر ثواب ملتا ہے۔ (۳) دُعا کی کثرت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔
اگرچہ دُعا مانگنے کے آداب میں یہ بات بھی داخل ہے کہ قبلہ رو ہاتھ اُٹھا کر زبان سے دُعا مانگی جائے اور پہلے حمد و ثنا اور پھر درُود شریف پڑھا جائے لیکن اگر اس کا موقع نہ ہو تو اس کے بغیر بھی دُعا کرنا جائز ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے دُعا کو اتنا آسان فرما دیا ہے کہ وہ تقریباً ہر وقت اور ہر جگہ مانگی جاسکتی ہے۔ چلتے پھرتے بھی، کام کرتے ہوئے بھی اور اگر زبان سے مانگنے کا موقع نہ ہو (مثلاً بیت الخلاء وغیرہ میں) تو دل ہی دل میں بھی مانگی جاسکتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دُعا میں بڑی بڑی چیزیں مانگی جائیں بلکہ اپنی ہر چھوٹی بڑی حاجت اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہیے۔ یہاں تک کہ حدیث میں ہے کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ (بحوالہ ترمذی)
ہمیں اس بات کی عادت ڈال لینی چاہیے کہ جب کوئی چھوٹی سے چھوٹی حاجت بھی پیش آئے تو اس کو اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے۔ کوئی معمولی سے معمولی تکلیف ہو تو اس کا ازالہ بھی اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے جس طرح بچے کو جب کوئی ضرورت پیش آتی ہے یا کوئی ادنیٰ تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ماں کو پکارتا ہے۔ اسی طرح بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے اور پکارتا رہے۔ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، کام کرتے ہر وقت کچھ نہ کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے، عادت ڈال کر دیکھیں، ان شاء اللہ اس سے بہت جلد ترقی ہوگی۔

مسنون دُعاؤں کا اہتمام کریں

یوں تو ہر حاجت اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہیے لیکن سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات کے مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کچھ خاص خاص دُعائیں سکھائی ہیں۔ مثلاً نیند سے بیدار ہوکر کیا دُعا کریں؟ بیت الخلاء سے جانے سے پہلے کیا کہیں؟ وہاں سے باہر نکل کر کیا پڑھیں؟ وضو کرتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد سے باہر نکلتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھانے کے بعد، اذان سننے کے بعد، کپڑے پہنتے وقت، آئینہ دیکھتے وقت، بستر پر پہنچ کر سونے سے پہلے۔ غرض مختلف مواقع پر مختلف دُعائیں سکھائی ہیں جو ہمارے دین و دُنیا کی تمام ضرورتوں کے لیے انتہائی جامع اور مفید دُعائیں ہیں۔ اگر ہم ساری عمر سوچتے رہیں تب بھی ایسی دُعائیں خودسے نہ مانگ سکیں جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھا دی ہیں۔
ان دُعاؤں کے پڑھنے میں نہ کوئی وقت صرف ہوتا ہے نہ محنت لگتی ہے، نہ ان کے لیے وضو شرط ہے نہ ہاتھ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ بس اگر ان دُعاؤں کو یاد کرلیا جائے تو ذرا سے دھیان کی بات ہے اور اس معمولی سی توجہ کے نتیجہ میں دُنیا و آخرت کے عظیم مقاصد اور فوائد حاصل ہو جتاے ہیں اور بغیر کسی خاص محنت کے نامۂ اعمال میں نیکیوں کے ذخیرے جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ یہ دُعائیں ضرور یاد کرلے۔ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن میں یہ دُعائیں لکھی ہوئی ہیں۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کی کتاب ’’مناجات مقبول‘‘ میں بھی ایسی بیشتر دُعائیں جمع کردی گئی ہیں۔ اس میں دیکھ کر یہ دُعائیں یاد کی جاسکتی ہیں، خود بھی یاد کریں اور بچوں کو بھی یاد کراکر بچپن ہی سے ان کا عادی بنائیں تو ان شاء اللہ ان کی دُعاؤں کا ثواب بھی ملے گا۔

دوسروں کیلئے دُعاء کرنا سنت ہے

دوسروں کے لیے بھی دُعا کیجئے جس طرح اپنی ذاتی حاجتوں کے لیے دُعا مانگنی چاہیے۔ اسی طرح اپنے دوسرے اعزہ و اقربا، دوست احباب اور عام مسلمانوں کے لیے دُعا مانگنا بھی بہت فضیلت کی چیز ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’جو مسلمان بندہ اپنے کسی بھائی کے لیے اس کی غیرموجودگی میں دُعا کرتا ہے تو فرشتے اس کے حق میں یہ دُعا کرتے ہیں کہ تم کو بھی ویسی ہی بھلائی ملے۔‘‘ (صحیح مسلم)

دُعا کی ضروری ہدایات

دُعا کی قبولیت کے لیے ہمیشہ حلال طریقے سے کمائی ہوئی آمدنی اپنے استعمال میں لائیں۔ (منہاج المسلمین، مسلم کتاب الزکوٰۃ)
اللہ تعالیٰ کو اپنے قریب سمجھیں اور اس سے براہِ راست مانگیں۔ (البقرہ القرآن)
دُعا کرتے وقت یہ یقین رکھیں کہ دُعا ضرورقبول ہوگی۔ (المؤمن القرآن)
دُعا گڑگڑا کر چپکے چپکے کریں۔ (الاعراف القرآن)
دُعا حضورِ قلب سے کریں، اگر حضورِ قلب نہ ہو تو دُعا قبول نہ ہوگی۔ (ترمذی، حاکم)
خوشحالی کے زمانہ میں کثرت سے دُعا کریں تاکہ مصیبت کے زمانے میں دُعا جلد قبول ہو۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ سے دُعا ضرور کرتا رہے۔ اگر دُعا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ (ترمذی)
موت کی دُعا نہ کریں۔ (بخاری)
دُعا عبادت ہے۔ لہٰذا دُعا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے نہ مانگیں۔ (احمد، ترمذی)

دُعا عبادت کا جوہر

دُنیا سکھ و چین کی جگہ نہیں بلکہ تکلیف اور مشقت کی جگہ ہے۔ ہمیں اس دُنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جس کی زندگی آرام و سکون سے پُر ہو۔ انسان کی زندگی میں ایسے نازک دور بھی آتے ہیں جب اسے کسی کی امداد و اعانت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اسے اس بھری دُنیا میں کوئی ایسی طاقت نظر نہیں آتی جو اس کی مشکلات کو حل کرسکے۔ اسی حالت میں انسان کا دل، دماغ، ہاتھ پاؤں غرض جسم کا رُواں رُواں اس پروردگار عَالَم کو پکارتا ہے جس کی بادشاہت کائنات اور عَالَم کے گوشے گوشے پر ہے اور جس نے اپنے انبیاء کے ذریعے ہمیں ایک ایسا انمول ہیرا دیا ہے کہ جس کی قدر و منزلت کا ٹھکانا ہی نہیں اور وہ ہیرا ’’دُعا‘‘ ہے۔

دُعا مؤمن کا ہتھیار ہے

طبرانی کی حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’دُعا مؤمن کا ہتھیار ہے‘‘ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مؤمن کی مراد ظاہر میں پوری نہیں ہوتی کیونکہ مؤمن کو اس آزمائش سے اس کے گناہوں کو مٹانا چاہتا ہے۔ یہی چیز اس کے حق میں اچھی ہے کیونکہ اس کی دُعا قبول کرکے اس کی مصیبتوں کو دُور کرنا اس کے حق میں نامناسب ہے ایسے وقت کچے ایمان والے ڈانواں ڈول ہو جاتے ہیں کہ خدا نے ہماری فریاد نہیں سنی۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظاہر میں کافروں کی دُعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ یہ اس لیے نہیں کہ معاذ اللہ ان کے جھوٹے معبود ان کی حاجتیں پوری کرتے ہیں بلکہ اس بے ایمان کے لیے اللہ کی طرف سے ایک ڈھیل دی گئی ہے جیساکہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں اور میری تدبیر سے کوئی بچ کر نکلنے والا نہیں۔‘‘

مؤمن کی دانائی

پس مؤمن کو بڑی دانائی اور ہوشیاری سے کام لینا چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ دُنیا کے کارخانے میں اس کے لیے طرح طرح کے دُکھ، قسم قسم کی پریشانیاں اور وضع وضع کی تکلیفیں ڈھالی جارہی ہیں تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جسے اللہ تعالیٰ بہت بھلائیاں دینا چاہتا ہے اس پر مصیبتیں بھیجتا ہے۔‘‘۔
قرآن مجید میں ہے: ’’تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دُعا کرو، میں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔‘‘ یعنی مسلمان کو حکم کیا گیا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ سے ہی دُعا کرے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس کا ثواب دوں گا۔
ترمذی میں ہے ’’دُعا عبادت کا جوہر ہے‘‘ ایک اور جگہ ترمذی میں ہے اللہ کے نزدیک دُعا کی بڑی قدر و قیمت ہے کیونکہ دُعا عبادت کا جوہر اور اس کا خلاصہ اور فرمانبردار بندہ اللہ کا محبوب ہوتا ہے اور محبوب کی قدر ہرجگہ ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ ترمذی میں ہے ’’آدمی اللہ سے سوال نہیں کرتا اللہ پاک اس پر غضب ناک ہو جاتا ہے کیونکہ دُعا نہ کرنا تکبر اور غرور کی علامت ہے۔‘‘۔
ترمذی میں ہے ’’تمہارا پروردگار بڑا غیرت والا اور بڑی عزت والا ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو اسے خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘۔

دُعا کی شرائط

دُعا کی چند شرائط ہیں: پہلی شرط توحید و اتباع سنت ہے۔ انسان جس قدر بھی سنت کا اتباع کرے گا اسی قدر اس کی دُعا مستجاب ہوگی۔ دوسری شرط اخلاص ہے۔ یعنی سچے اور صاف دل سے دُعا کی جائے محض دکھاوا نہ کیا جائے۔ دُعا کی تیسری شرط حلال مال ہے۔ جب آدمی کا کھانا پینا اور لباس حلال مال کا ہوگا تو اس کی دُعا ضرور اثر کرے گی۔ چوتھی شرط کبھی جھوٹ نہ بولنا ہے کیونکہ جھوٹ بولنے والا منافق ہے اور منافق ریاکار اور ریاکار مشرک اور مشرک کی دُعا قبول نہیں ہوتی۔ (لیکن اگر اللہ چاہے)۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ دُعا جس میں گناہ اور قطع رحمی کا شائبہ ہو قبول نہیں ہوتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک بندہ گناہ اور قطع رحمی کی دُعا نہ چھوڑے گا اس کی دُعا قبول نہ ہوگی۔‘‘ چھٹی شرط جلدی نہ کرنا ہے۔ بہت سے لوگ دُعا کرتے ہیں اور اس کا فوری اثر چاہتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ساتویں شرط ممکنات کی دُعا کرنا ہے یعنی دُعا تو وہی قبول کی جائے گی جو ممکن ہوگی۔ اگرچہ اللہ ہرچیز پر قادر ہے لیکن وہ اپنے قانون کے خلاف نہیں کرتا۔

دُعا کے آداب

انسان باوضو ہو۔ طبرانی کی ایک روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے صحیح صحیح وضو کیا، پھر دو رکعتیں نماز پڑھی، پھر اپنے رب سے دُعا کی تو اس کی دُعا قبول کی جائے گی، خواہ جلدی اثر ہو یا دیر میں۔ دُعا کرتے وقت رُخ قبلہ کی طرف ہو۔ جب آپ قبلہ کی طرف رُخ کرکے بیٹھ جائیں تو اپنی تمام تر توجہ اپنی دُعا پر جمالیجئے۔ اس بات کا دھیان رکھئے کہ توجہ ہٹنے نہ پائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’یاد رکھو اللہ پاک غافل اور لہو و لعب والے دل کی دُعا قبول نہیں فرماتا۔‘‘ دُعا مسلسل کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اچھی معلوم ہوتی ہے کہ دُعا اس سے مانگی جائے۔ دُعا مانگتے وقت خوب روؤ، جتنا رویا جاسکے، گڑگڑا کر مانگو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی کمی نہیں، ارشاد ہوتا ہے ’’لوگو، مرد اور عورتو!اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دُعا کرو۔‘‘
دُعا کرتے وقت پہلے اپنے پروردگار کی خوب تعریف کرو جس قدر ہوسکے اس کی پاکی اور عظمت کے پیارے بول بولو اور دُعا کے آخر میں بھی تعریف بیان کرو۔ دُعا کے اوّل اور آخر درُود شریف پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر دُعا قبول نہیں ہوتی اور آسمانوں میں معلق رہتی ہے۔ دُعا مانگتے وقت ہتھیلیوں کا رُخ منہ کی طرف کرلو اور دونوں ہاتھوں کو ملالو۔ حدیث میں بھی ہے کہ اللہ پاک کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ دُعا کے الفاظ بار بار پڑھنے چاہئیں کیونکہ سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جب دُعا فرماتے تھے تو تین مرتبہ دُعا کے الفاظ دہراتے تھے۔
جس چیز کی ضرورت ہو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگو۔ ترمذی شریف کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر شخص اپنی ہر ضرورت صرف اپنے رب سے مانگے یہاں تک کہ اگر اس کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اپنے رب سے مانگے۔‘‘
دُعا ختم ہو جانے کے بعد آمین کہنا چاہیے۔ آمین کے معنی ہیں اے اللہ! میری دُعا قبول فرمایئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ آمین اللہ پاک کی مؤمن بندوں پر ایک مہر ہے۔ دُعا کرنے کے بعد دونوں ہاتھ منہ پر پھیرلو۔
دُعا کسی ایسے مقام پر مانگی جائے جہاں سکون اور اطمینان قلب نصیب ہو۔ یہی وجہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ حرا کو عبادت کے لیے مخصوص کیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ پاک کے خوبصورت ناموں سے دُعائیں مانگا کرو۔ پیارے پیارے نام اللہ ہی کے ہیں تم ان سے دُعائیں مانگا کرو۔ دُعا پورے بھروسے کے ساتھ مانگو، یقین رکھو کہ تمہارا مدعا ضرور پورا ہوگا۔ اگر کوئی اللہ سے اپنے لیے دُعا مانگ رہا ہے تو یہ نہ کہے کہ یہ چیز اے اللہ!مجھے مل جائے اور فلاں کو نہ ملے۔ دُعا میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ یعنی نہ صرف اپنے لیے بلکہ تمام مسلمانوں اور عالم اسلام کیلئے دُعا کرنی چاہیے۔

مقاماتِ قبولیت

یوں تو ہر جگہ دُعا قبول ہو جاتی ہے مگر چند مقامات ایسے ہیں جہاں بہت جلد دُعا قبول ہو جاتی ہے۔ بیت اللہ شریف (ترمذی) کیونکہ یہاں کی ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ بیت المقدس (ابوداؤد) یہاں ایک نیکی پچاس ہزار نیکیوں کے برابر ہے۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک اور منبر کے درمیان ریاض الجنۃ، جنت کا باغیچہ ہے جہاں ایک دُعا پچاس ہزار دُعاؤں کے ہم پلہ ہوتی ہے۔
یہ تین مساجد وہ مقدس ترین مقامات ہیں جہاں بڑے بڑے عظیم المرتبت اور اولوالعزم انبیاء نے نمازیں پڑھیں اور دُعائیں مانگی ہیں، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات پر دُعا مانگنے سے جلد قبول ہو جاتی ہے۔ رُکن و مقام ابراہیم علیہ السلام کے درمیان بیت اللہ کے اندر صفا و مروہ پر میدان سعی، میدان عرفات، مزدلفہ، منٰی، عقب مقام ابراہیم علیہ السلام۔
تمام شب جمعہ، آدھی رات کے بعد، شب قدر اذان و اقامت کے درمیان، نماز میں صف بندی کے وقت، فرض نمازوں کے بعد، سجدے میں، عرفہ کے دن، رمضان میں افطار کے وقت، بارش میں، سحری کے بعد، مظلومیت کے وقت، آب زم زم پیتے وقت۔ (بحوالہ چیدہ چیدہ از جوہر دُعا)

مسنون دُعاؤں کا اہتمام کریں

یوں تو ہر حاجت اللہ تعالیٰ سے مانگنی چاہیے لیکن سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن رات کے مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر کچھ خاص خاص دُعائیں سکھائی ہیں۔ مثلاً نیند سے بیدار ہوکر کیا دُعا کریں؟ بیت الخلاء سے جانے سے پہلے کیا کہیں؟ وہاں سے باہر نکل کر کیا پڑھیں؟ وضو کرتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد سے باہر نکلتے وقت، گھر میں داخل ہوتے وقت، کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھانے کے بعد، اذان سننے کے بعد، کپڑے پہنتے وقت، آئینہ دیکھتے وقت، بستر پر پہنچ کر سونے سے پہلے۔ غرض مختلف مواقع پر مختلف دُعائیں سکھائی ہیں جو ہمارے دین و دُنیا کی تمام ضرورتوں کے لیے انتہائی جامع اور مفید دُعائیں ہیں۔ اگر ہم ساری عمر سوچتے رہیں تب بھی ایسی دُعائیں خودسے نہ مانگ سکیں جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھا دی ہیں۔
ان دُعاؤں کے پڑھنے میں نہ کوئی وقت صرف ہوتا ہے نہ محنت لگتی ہے، نہ ان کے لیے وضو شرط ہے نہ ہاتھ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ بس اگر ان دُعاؤں کو یاد کرلیا جائے تو ذرا سے دھیان کی بات ہے اور اس معمولی سی توجہ کے نتیجہ میں دُنیا و آخرت کے عظیم مقاصد اور فوائد حاصل ہو جاتے ہیں اور بغیر کسی خاص محنت کے نامۂ اعمال میں نیکیوں کے ذخیرے جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ یہ دُعائیں ضرور یاد کرلے۔ بہت سی کتابیں ایسی ہیں جن میں یہ دُعائیں لکھی ہوئی ہیں۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کی کتاب ’’مناجات مقبول‘‘ میں بھی ایسی بیشتر دُعائیں جمع کردی گئی ہیں۔ اس میں دیکھ کر یہ دُعائیں یاد کی جاسکتی ہیں، خود بھی یاد کریں اور بچوں کو بھی یاد کراکر بچپن ہی سے ان کا عادی بنائیں تو ان شاء اللہ ان کی دُعاؤں کا ثواب بھی ملے گا۔

سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

مختلف سنتیں

مختلف سنتیں سنت-۱ :بیمار کی دوا دارو کرنا (ترمذی)سنت- ۲:مضرات سے پرہیز کرنا (ترمذی)سنت- ۳:بیمار کو کھانے پینے پر زیادہ زبردستی مت کرو (مشکوٰۃ)سنت- ۴:خلاف شرع تعویذ‘ گنڈے‘ ٹونے ٹوٹکے مت کرو (مشکوٰۃ) بچہ پیدا ہونے کے وقت سنت-۱: جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان...

read more

حقوق العباد کے متعلق سنتیں

حقوق العباد کے متعلق ہدایات اور سنتیں اولاد کے حقوق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ: ٭ مسلمانو! خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتائو کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔۔۔۔ ٭ جو مسلمان اپنی لڑکی کی عمدہ تربیت کرے اور اس کو عمدہ تعلیم دے اور...

read more

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں

عادات برگزیدہ خوشبو کے بارے میں آپ خوشبو کی چیز اور خوشبو کو بہت پسند فرماتے تھے اور کثرت سے اس کا استعمال فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔۔۔۔ (نشرالطیب)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں بھی خوشبو لگایا کرتے تھے۔۔۔۔ سونے سے بیدار ہوتے تو قضائے حاجت سے...

read more