دو بیویوں کے مابین عدل و انصاف سے متعلق ضروری مسائل
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
مسئلہ (۱):نقد دینے اور بغرضِ تالیف و انس (یعنی دلجوئی کے لیے )رات گزارنے میں عدل (دونوں بیویوں میں انصاف اور برابری کرنا) واجب ہے اور ہم بستری میں واجب نہیں۔
مسئلہ (۲):لیکن اگر ہم بستری ، بوس و کنار وغیرہ میں برابری کرے تو مستحب ہے گو واجب نہیں۔
مسئلہ (۳):اور واجب نہ ہونا اس وقت تو متفق علیہ ہے جب کہ رغبت اور نشاط نہ ہو ، اس صورت میں معذور ہوگا لیکن اگر رغبت و نشاط ہے گو دوسرے کی طرف زیادہ ہے اور اس کی طرف کم ہے تو اس صورت میں ایک قول یہ ہے کہ اس میں بھی برابری واجب ہے۔

مسئلہ (۴):باقی تبرعات و تحائف (یعنی زائد لین دین اور ہدئیے تحفے جوڑے وغیرہ جو لازم نہیں ہیں) ان میں بھی عدل کرنا واجب ہے ، حنفیہ کا یہی قول ہے۔
مسئلہ (۵):شب باشی (رات گزارنے ) میں برابری کرنے کا حکم حضر میں ہے( یعنی وطن یا اقامت کی حالت میں) اور سفر میں اختیار ہے جس کو چاہے ساتھ لے جائے ، لیکن شکایت ختم کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا افضل ہے ، اور حالت ِ قیام کا حکم مثل حضر کے ہوگا۔
مسئلہ (۶):یہ شب باشی(رات گزارنے) کی برابری اس شخص کے لیے ہے جو رات میں خالی ہو، اور جس کی نوکری رات کی ہو جیسے چوکیدار وغیرہ تو اس کا دن رات کے حکم میں ہے

مسئلہ (۷):مکان میں جو برابری واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو علیحدہ گھر دینا چاہیے ، جبراً دونوں کو ایک گھر میں رکھنا جائز نہیں ، البتہ دونوں رضامند ہوں تو ان کی رضامندی تک جائز ہے۔
مسئلہ (۸):جس شخص پررات میں عدل کرنا واجب ہے ، ایک شب (یعنی رات کی باری) میں دوسری کو شریک کرنا درست نہیں ، یعنی ایک کی شب میں دوسری کے پاس نہ جائے۔
مسئلہ (۹):یہ بھی درست نہیں کہ ایک کے پاس مغرب کے بعد جائے اور دوسری کے پاس عشاء کے بعد بلکہ اس میں بھی برابری ہونا چاہیے۔
مسئلہ (۱۰):اسی طرح ایک شب میںدونوں جگہ تھوڑا تھوڑا رہنا درست نہیں۔

مسئلہ (۱۱):لیکن مذکورہ بالا تین مسئلوں میں اگر (ایک بیوی کی) اجازت و رضامندی ہو تو درست ہے۔
مسئلہ (۱۲):اور جس طرح رضامندی سے تھوڑی تھوڑی رات دونوں کے پاس رہنا درست ہے،اسی طرح اگر دونوں کی باری کا دور ختم کرکے ایسا کرے اور پھر جس طرح چاہے باری مقرر کرے تو یہ بھی درست ہے۔
مسئلہ (۱۳):دن کے آنے جانے میںبرابری واجب نہیں بلکہ تھوڑی دیر کے لیے ہو آنا بھی کافی ہے۔
مسئلہ (۱۴):یا کسی ضرورت سے صرف ایک ہی جگہ (یعنی ایک ہی بیوی کے پاس ) جائے تب بھی درست ہے۔

مسئلہ (۱۵):اس روزجس کی باری نہ ہو اس سے دن کو صحبت درست نہیں۔
مسئلہ (۱۶):باری کی مقدارمقرر کرنا مردوں کی رائے پر ہے لیکن وہ مقدار اتنی طویل نہ ہو کہ دوسری بیوی کو انتظار کی تکلیف ہونے لگے ، مثلاً ایک ایک سال۔
مسئلہ (۱۷):اگر بیماری کی وجہ سے ایک ہی گھرمیں زیادہ رہا تو صحت کے بعد اتنے ہی روز دوسری کے گھر رہناچاہیے۔
مسئلہ (۱۸):اسی طرح اگرایک بیوی سخت بیمار ہو گئی ہو تو اس کی ضرورت سے اس کے گھر رہنے میں مضائقہ نہیں اور ان ایام کی قضاء ضروری معلوم ہوتی ہے۔
مسئلہ (۱۹):ایک منکوحہ کو اپنی باری دوسری کو ہبہ کر دینا درست ہے ، پھر جب چاہے واپس لے سکتی ہے۔(صفحہ۳۸۸۔ ۳۹۱،اسلامی شادی)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات نکاح یعنی اسلامی شادی سے متعلق ہیں ۔ ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں