دوسرے کے لئے راحت بنے رہیں (301)۔

دوسرے کے لئے راحت بنے رہیں (301)۔

کسی کا تسلسل توڑنا بھی ایک اذیت ہے۔ جس کوکوئی محسوس نہیں کرتا اور اس عمل کو گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ یاد رکھیں!!!کسی بھی مسلمان بھائی کو اذیت پہنچانا گناہ ہے۔
تسلسل توڑنے سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص کسی کام میں بے حد مصروف ہو اور آپ اچانک اُس کے پاس جا کر کوئی غیر ضروری سوال کردیں یا خلل کا باعث بن جائیں تو یہ بہت ہی غلط عمل ہوتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص آفس میں بیٹھ کر کام کررہا ہے اور اپنے کام میں بہت منہمکہے۔ آپ اُس سے جاکر وقت پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ بھائی ذرا ٹائم بتائیے گا!!! اگر وہ وہ پریشان ہوتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ میں نے صرف وقت پوچھا اور آپ نے بتادیا یعنی آپکا صرف ایک سیکنڈ لگا ہے۔ اسمیں پریشان ہونے والی بات کون سی ہے؟
دوسری مثال دیکھئے۔۔۔ایک شخص تیز تیز چل کرکہیں جا رہا ہے۔ اور آپ اُسکو اچانک روک کرپوچھتے ہیں کہ فلاں صاحب کہاں ہیں۔ اگرچہ اس بات کا جواب دینے میں ایک لمحہ لگے گا مگر وہ تیز تیز چلنے والا بندہ ضرور پریشان ہو کر آپ سے شکوہ کرے گا کہ یہ بات پھر کبھی پوچھ لیتے۔
یا پھر آپ دیکھ لیں کہ سڑک پر کوئی تیز رفتار گاڑی چل رہی ہے اور آپ اچانک سے روڈ کراس کرنے لگ جاتے ہیں اور آپکو روڈ کراس کرتے ہوئے دو سیکنڈ لگتے ہیں۔ اس پر آپ سمجھیں گے کہ یہ گاڑی والا کیسا بے صبرا ہے کہ دو سیکنڈ نہیں رک سکتا؟
تو دوستو! ان تین مثالوں میں ایک ہی بات مشترک ہے کہ آپ نے سامنے والے کا تسلسل توڑ دیاہے۔ جس کام میں وہ منہمک تھا تو اُسکا انہماک خراب ہوگیا۔ یہ بھی ایک اذیت ہے۔ یہ بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات اس سے ذہن اتنا شدید متاثر ہوجاتا ہے کہ مقابل کی حرکت برداشت سے باہر ہوجاتی ہے۔
اپنے مسلمان بھائیوں کا دھیان کریں اُنکا اکرام کریں اور جہاں کوئی شخص مصروف بیٹھا ہو تو اُسکے اوقات میں ایک لمحہ کا بھی خلل نہ ڈالیں۔
خاص طور پر روڈ پر چلتے ہوئے اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی سوار شخص تیزی سے آرہا ہے۔ اور آپ اُسکے آگے سے گزر جاتے ہیں۔ اب اگرچہ وہ شخص ایک لمحہ کے لئے اپنی رفتار کم کرے گا اور پھر بڑھا دے گا مگر اس میں تسلسل ٹوٹ گیا جو کہ دوسرے کی تکلیف کا سبب بنا۔ اس کومحسوس کریں اور اس طرح تکلیف دینے سے اجتناب کریں۔
بزرگان دین اولیاء اللہ کرام اپنے وجود کو کسی کی ادنی تکلیف کا بھی سبب نہ بننے دیتے تھے۔
وہ لوگوں کی پریشانی اور تکلیف دور کرتے تھے مگر خود کسی پر پریشانی کا سبب نہیں بنتے تھے۔ یہی مسلمان کی شان ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے راحت بنا رہے اور دوسروں کو آسانی فراہم کرنے کا جذبہ رکھ کر چلتا رہے۔

نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

Most Viewed Posts

Latest Posts

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326)۔

ظاہری حال سے شیطان دھوکا نہ دے پائے (326) دوکلرک ایک ہی دفتر میں کام کیا کرتے تھے ایک بہت زیادہ لالچی اور پیسوں کا پجاری تھا۔ غلط کام کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتاتھا۔ جہاں کہیں خیانت اور بددیانتی کا موقع ہوتا تو بڑی صفائی سے اُسکا صاف ستھرا...

read more

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔

استاذ اور شاگرد کے درمیان تعلق مضبوط کیسے ہوگا؟ (325)۔ مدرسہ استاذ اور شاگرد کے تعلق کانام ہے۔جہاں پر کوئی استاذ بیٹھ گیا اور اس کے گرد چند طلبہ جمع ہوگئے تو وہ اک مدرسہ بن گیا۔مدرسہ کا اصلی جوہر کسی شاندار عمارت یا پرکشش بلڈنگ میں نہیں، بلکہ طالبعلم اور استاد کے...

read more

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔

خلیفہ مجاز بھی حدودوقیود کے پابند ہوتے ہیں (324)۔ خانقاہی نظام میں خلافت دینا ایک اصطلاح ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب نسبت بزرگ اپنے معتمد کو نسبت جاری کردیتے ہیں کہ میرے پاس جتنے بھی بزرگوں سے خلافت اور اجازت ہے وہ میں تمہیں دیتا ہوں ۔یہ ایک بہت ہی عام اور مشہور...

read more