دوستی کا ہاتھ بڑھاکر …..دل کی نفرت ختمکریں (196)۔
انسانی زندگی میں اختلافات اور ناراضگیاں پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جب ہم کسی سے تعلق قائم کرتے ہیں تو کبھی نہ کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ دل میں ناگواری اور غصہ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک عام بات ہے جس کا سامنا تقریباً ہر انسان کو ہوتا ہے۔ مگر شیطان اس موقع پر انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور اس ناراضگی کو دشمنی میں بدل دیتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہم سے غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں۔
بہت سے لوگ دشمنی کا حل یہ نکالتے ہیں کہ وہ دل میں حسد اور بغض بھر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ہم سامنے والے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا رہے تو یہ ہمارا حق ہے کہ دل میں جو بھی جذبات رکھ لیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ طرز عمل خود کو اذیت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ حسد اور بغض رکھنے سے انسان خود ہی اندر سے جلتا رہتا ہے۔ دن رات اسی میں کڑھتا ہے اور اس کے اثرات اس کی اپنی زندگی اور سکون پر پڑنے لگتے ہیں۔
کچھ لوگ دشمنی کو نسل در نسل لے کر چلتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بھی اپنی ناراضگی اور اختلافات کی کہانیاں سناتے ہیں اور انہیں بھی اسی نفرت کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔ اس سے ان کے رشتے دار اور عزیز و اقارب بھی تقسیم ہو جاتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنی نفرت کو نسل در نسل منتقل کر دیا ہے اور اس نفرت کی آگ نے خاندانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔
دل میں دشمنی رکھ کر زندگی بسر کرنا ایسی کیفیت ہے جو انسان کے دل اور دماغ کو سکون سے محروم کر دیتی ہے۔ جس طرح محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، اسی طرح نفرت، غصے اور اختلافات کو بھی مناسب الفاظ کے ذریعے ظاہر کیا جانا چاہیے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان اپنی بات زبان سے کہہ دے تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے اور معاملہ سلجھ جائے۔
میرے ایک دوست نصیحت کررہے تھے کہ جب بھی کسی سے ناراضگی ہو تو چاہے تم خود سکون کی گولی کھالو، مگر دل میں اُسکے لئے دشمنی اور بغض نہ پالو۔
آپسی اختلافات کو سلجھانے کا سب سے بہترین اور آخری حل یہی ہوتا ہے کہ بیٹھ کر بات کریں اور ایسا طرز اختیار کریںکہ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دوسرے کے دل کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ الفاظ کو اس قدر محتاط انداز میں ادا کریں کہ سامنے والا آپ کی بات کو سمجھ سکے اور اپنی غلط فہمی بھی دور کرسکے۔ انسان جب اپنے دل کے درد کو الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے تو نہ صرف خود کو سکون ملتا ہے بلکہ دوسرے شخص کو بھی بات سمجھ آجاتی ہے اور معاملات سلجھنے لگتے ہیں۔
بعض اوقات ناراضگی کی شدت میں لوگ سامنے والے کے خلاف غلیظحرکتیں شروع کردیتے ہیں۔ یہ رویہ نہایت غلط ہے۔ برے اعمال، جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈا نہ صرف دشمنی کو بڑھاتا ہے بلکہ معاشرتی تفریق اور انتشار کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس طرح کا رویہ معاشرے میں بگاڑ اور فساد پیدا کرتا ہے اور انسان خود بھی بے سکون ہو جاتا ہے۔اگر دل میں کسی کے متعلق منفی خیالات جنم لیں تو بہتر یہی ہے کہ انہیں نظر انداز کر دیا جائے۔ اگر مسلسل منفی خیالات آتے رہیں تو انہیں دل میں دبانے کے بجائے متعلقہ شخص کے سامنے زبان سے بیان کر دینا بہتر ہے۔البتہ یہ فرض ہے کہ الفاظ کا انتخاب مناسب ہو اور دل صاف ہو۔ اس طرح بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور دل میں جو بوجھ ہوتا ہے وہ ہلکا ہوسکتاہے۔
اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ دل میں بغض اور کینہ نہ رکھیں بلکہ ہر ممکن کوشش کریں کہ تعلقات میں محبت اور سکون برقرار رہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دلوں سے بغض اور نفرت ختم کرنے کی توفیق دے اور ہمیں محبت اور بھائی چارے کا ذریعہ بنائے۔ آمین
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

