دوستی و دشمنی میں اعتدال کا حکم
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ اتحاد و اتفاق میں اس کی ضرورت ہے کہ اتنا اختلاط بھی نہ ہو کہ اپنے خاص اسرار (راز کی باتیں) دوسروں سے ظاہر کر دے کیونکہ ممکن ہے کہ کسی وقت تعلق نہ رہے تو پھر ان اسرار کے ظاہر کرنے کی وجہ سے پچھتانا پڑےگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے *احبب حبیبک ھونا ما*، *عسى أن يكون بغيضك يوماما*، *وأبغض بغيضك هونا ما عسى*، *أن يكون حبيبك يوما ما* (ترمذی). یعنی دوست سے سنبھل کر دوستی کرو، زیادہ میل جول نہ کرو، شاید کسی دن (اس سے) دشمنی ہوجائے تو گھر کے بھیدی کی دشمنی بہت نقصان دیتی ہے اور اگر کسی کو اپنے دوست کے متعلق عداوت کا احتمال نہ ہو تو وہ اپنے ہی متعلق احتمال رکھے کہ شاید کسی دن میں ہی بدل جاؤں، اس لئے اتفاق میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر کسی سے عداوت کرو تو وہاں بھی حد کے اندر عداوت کرنا چاہئے، حد سے نہ بڑھے کیونکہ کیا خبر ہے کہ کسی وقت پر دوستی کرنے کی ضرورت ہو تو اس وقت آنکھیں سامنے کرنے سے حیا دامن گیر ہوگی، اور جس کی دوستی و دشمنی اعتدال میں ہوگی اس کو کسی وقت بھی پریشانی نہ ہوگی۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

