دلجوئی کی خاطر تقویٰ کے بجائے فتویٰ پر عمل
ملفوظاتِ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ارشاد فرمایا کہ حضرت حاتم عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی حکایت ہے کہ ان کو ایک شخص نے کچھ نذر کی۔ آپ نے کچھ عذر فرمایا اس لیے کہ اس میں کچھ شبہ تھا۔ اگرچہ وہ شے فتویٰ کی روح سے جائز تھی مگر تقویٰ کے اعتبار سے اس کا لینا درست نہ تھا اور حکم شرعی یہ ہے کہ اگر تقوی کے اس خاص درجہ پر عمل کرنے سے دوسرے کی دل شکنی ہو تو فتویٰ پر عمل کرنا چاہیے۔ ایسے موقع پر تقویٰ کی حفاظت جائز نہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ اگر کسی سے بڑی مقدار ملے مثلاً پانچ سو روپے اور مشتبہ تو کیا مشتبہ سے بھی آگے بڑھ کر ہو تو تاویل کرا کر اس کو جائز کرلیں گے اور اگر کوئی ایک روپیہ دے تو سارا تقویٰ اس میں چلادیں گے۔ القصہ حضرت حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اول انکار کیا، جب اس نے اصرار کیا تو لے لیا بخلاف ہم لوگوں کے کہ اگر ہمارے منہ سے ایک مرتبہ نہ نکل جاوے تو ہرگز نہ لیں گے کیونکہ اب لینا اپنی آن کے خلاف ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے اول انکار کیوں کیا اور دوبارہ کیوں لے لیا؟ فرمایا کہ اول اس لیے انکار کیا کہ اس کا لینا تقویٰ کے خلاف تھا اور جب اس نے اصرار کیا تو خیال کیا کہ نہ لینے میں تو میری عزت اور اس کی ذلت ہے اور لینے میں میری ذلت اور اس کی عزت ہے۔ میں نے اس کی عزت کو اپنی عزت پر ترجیح دی یعنی میرے نہ لینے سے میری بات تو بنی رہتی مگر میرے بھائی کی وجاہت اور آبرو میں فرق آتا اور یہ لینے میں میری شان کو دھبہ لگتا ہے مگر اس کی بات بنتی ہے۔ پس میں نے اپنی عزت اور آبرو کو لات ماری اور اپنے بھائی کی بات کو اونچا رکھا۔ سبحان اللہ ! نیت یہ ہے اور حقیتِ دین یہ ہے۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمتین بن حسین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

