دعوت قبول کرنے میں کوئی مباح شرط لگانا
بسلسلہ ملفوظات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ
حدیث میں ہے کہ ایک فارس کے رہنے والے شخص نے حضور ﷺ کی دعوت کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اور عائشہ دونوں چلیں گے ۔ فارسی نے کہا نہیں (یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہیں) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں(یعنی میں بھی نہیں جاتا، اسی طرح تین بار فرمایا)۔ پھر بعد میں اس فارسی نے آپ ﷺ کی شرط کو منظور کر لیا ، پس آپ ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں آگے پیچھے ہوتے ہوئے چلے، اس نے دونوں کے روبرو سالن پیش کیا۔
فائدہ: اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ اگر دعوت کی منظوری کو کسی جائز شرط سے مشروط کرے تو یہ امر نہ مسلمان کے حق کے منافی ہے اور نہ حسن اخلاق کے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے یہ شرط لگائی کہ اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بھی دعوت کرو تو میں بھی منظور کرتا ہوں ، اور اس فارسی کا منظور نہ کرنا شاید اس وجہ سے ہو کہ کھاناایک ہی شخص کو کافی ہوگا ،زیادہ نہ ہوگا۔ اس نے چاہا کہ حضور ﷺ شکم سیر یعنی خوب پیٹ بھر کر کھا لیں ، پھر اخیر میں منظور کر لینا اس خیال سے ہو کہ آپ کی تطییب ِ قلب (دل کو خوش کرنا) آپ کے شبع (یعنی سیراب ہونے) سے اہم ہے ، اور اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا ہوگا۔(صفحہ ۳۶۹،اسلامی شادی)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات نکاح یعنی اسلامی شادی سے متعلق ہیں ۔ ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

