خود رائی خطر ناک بیماری ہے
ہمارے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عالم کے لیے خود رائی بہت بڑی ’’داء عضال‘‘ ہے۔۔ یہ دماغ میں آگیا ہے کہ سمجھا کہ میں صحیح سمجھ رہا ہوں۔۔ میرے اساتذہ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔ میرے بڑے نہیں سمجھتے‘ وہ دین کو نہیں سمجھے۔۔ وہ دین کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔۔ ان کو دین کا درد نہیں ہے‘ مجھے درد ہے۔۔ ان کو دین کی فکر نہیں ہے‘ ان کو دین کی فہم نہیں ہے۔۔ جس دن یہ بات پیدا ہوگئی‘ اس دن ہلاکت کے راستے میں داخل ہوگئے۔
اور حضرت فرمایا کرتے تھے: کبھی مستقل بالذات نہ بنو‘ جو مستقل بالذات ہوتا ہے وہ مستقل بدذات ہو جاتا ہے تو اس واسطے میں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں ‘ ہر دور میں برحق ہے‘ لیکن اس فتنوں کے دور میں جس کے بارے میں میں نے عرض کیا کہ یہ پتا لگانا دشوار ہے کہ کون سی حرکت کی ڈور کہاں سے ہل رہی ہے؟
اور کس ڈور کا سراکس کے ہاتھ میں ہے؟ بظاہر اچھا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے پیچھے کچھ اور چیز ہوتی ہے۔۔ بسا اوقات بڑے اخلاص کے ساتھ‘ بڑی للّٰہیت کے ساتھ آدمی ایک کام کر رہا ہوتا ہے‘ لیکن حقیقت میں دوسرے لوگ اسے استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور اس کا نتیجہ بالآخر خراب نکلتا ہے۔
لہٰذا یہ میری دردمندانہ گزارش ہے کہ آپ نوجوان ہو اور نوجوانوں کی طبیعت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فطری طو پر ایک جوش و خروش رکھا ہے‘ جذباتیت رکھی ہے۔۔ جو نعرہ لگا دیا جائے‘ یہ جوان اس کی طرف لپکنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بسا اوقات عواقب و نتائج سے غافل ہو کر غلط راستہ کی طرف چل پڑتا ہے۔۔
