خودرائی کا علاج‘ شان تربیت

خودرائی کا علاج‘ شان تربیت

ایک طالب علم کو تحریر فرمایا کہ آپ اپنی رائے پر چلنے سے ہمیشہ پریشان رہے اور اب بھی آپ کی آنکھیں نہ کھلیں۔ اگر آپ کو اپنی خیر مطلوب ہے تو اپنی رائے سے بالکل کام نہ لیجئے اور اپنے ذمہ اس سے زیادہ کوئی کام نہ سمجھئے کہ جس سے اعتقاد ہو کہ اس کو اپنے حالات کی اطلاع کرتے رہئے اور وہ جو رائے دے اس کا اتباع کرتے رہئے اور نفس کو ناکامی پر راضی کر دیجئے اگر یہ نہ کیا جاوے گا آپ ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں گے۔ آخر خط میں اپنا علاج آپ نے خود تجویز کیا ہے کہ اگر سلسلہ میں داخل کر لیں تو شاید مفید ہو تو آپ مثل اس مریض کے ہیں کہ طبیب کے نسخہ لکھنے کے بعد ایک نسخہ خود لکھ کر طبیب کو دکھلا دے کہ شاید نسخہ زیادہ مفید ہو۔
جو مریض اپنے کو طبیب سے زیادہ محقق سمجھے اس کا مرض لاعلاج ہے آپ کا اصل مرض خودرائی ہے جو میری بار بار تنبیہات اور مدلل تحقیقات سے بھی دور نہ ہوئے۔ ایک ہی بات کو کہاں تک ہانکے جائوں پھر لطف یہ کہ اس پر دعویٰ اتباع و اعتقاد کا۔ بس اب اخیر جواب یہ ہے کہ اس کے بعد کوئی جواب تحریری دینا نہیں چاہتا اگرآپ کو اپنی خیر منظور ہے تو ایک برس کی مہلت نکال کر یہاں آئو چھ مہینہ بالکل ساکت و صامت ہو کر رہنا پڑے گا۔ اس مدت میں فقط میری باتوں کا سننا اصل کام ہو گا پھر چھ مہینہ تک آپ سے کام لیا جاوے گا اگر اس کے بعد بھی آپ کا یہ مرض نہ گیا تو مرض کو تو علاج نہ سمجھوں گا البتہ مریض اور طبیب میں عدم مناسبت کا فیصلہ کر کے آپ کو کسی شیخ کامل کا نام بتلا دیا جاوے گا اس سے جا کر مستفیض ہوویں۔
اور اگر یہ شرط آپ کو ثقیل معلوم ہو تو بہتر ہے کہ ابھی سے آپ دوسرے شیخ کی طرف رجوع کریں۔ مجھ کو اپنی کٹ حجتی سے پریشان اور مکدر کرنا فضول‘ بلکہ عجب نہیں کہ آپ کے لئے مضر ہو جاوے کیونکہ ایسے شخص کو ستانا جو دوسرے کو نہ ستاوے باطن کے برباد کرنے میں سخت موثر ہے خاص کر جس کو اپنے دعویٰ میں اپنا شیخ سمجھتا ہو اس کو ایذا دینا بالکل خدا و رسولؐ کو ایذا دینا ہے۔ اخیر بات یہ ہے کہ اس کے جواب میں بجز لاونعم کے اگر کوئی جواب آیا یہاں سے کچھ جواب نہ دیا جاوے گا۔
اس پر اس طالب نے لکھا کہ حضرت اقدس بجز نعم و لبیک اور کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ قیام تھانہ بھون بمدت ایک سال کے بابت خاکسارانہ استفسار ہے کہ خادم غریب و مسکین شخص ہے۔ مصارف وغیرہ کے برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر حضرت نے تحریر فرمایا کہ میں اس کے جواب کا ذمہ دار نہیں۔ باقی یہاں جس طرح کی خدمت بلاالتزام و بلاکفالت و بلاتعین مقدار و بلا تعین مدت احیاناً یا غالباً ہو جاتی ہے اس میں آپ بھی شریک ہو سکتے ہیں اگر آپ اپنے اندر اس توکل کی قوت پائیں بسم اللہ کریں ورنہ میں کچھ نہیں بتلا سکتا لیکن اگر آنا ہو تو میرے دونوں خط ہمراہ ضرور لائیں اور آتے ہی دکھلاویں۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا

تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔۔’’اجتہاد فی الدین کا دور ختم ہو چکا توہو جائے مگر اس کی تقلید کا دور کبھی ختم نہیں ہو سکتا‘ تقلید ہر اجتہاد کی دوامی رہے گی خواہ وہ موجودہ ہو یا منقضی شدہ کیونکہ...

read more

طریق عمل

طریق عمل حقیقت یہ ہے کہ لوگ کام نہ کرنے کے لیے اس لچر اور لوچ عذر کو حیلہ بناتے ہیں ورنہ ہمیشہ اطباء میں اختلاف ہوتا ہے وکلاء کی رائے میں اختلاف ہوتا ہے مگر کوئی شخص علاج کرانا نہیں چھوڑتا مقدمہ لڑانے سے نہیں رکتا پھر کیا مصیبت ہے کہ دینی امور میں اختلاف علماء کو حیلہ...

read more

اہل علم کی بے ادبی کا وبال

اہل علم کی بے ادبی کا وبال مذکورہ بالا سطور سے جب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اہل علم کا آپس میں اختلاف امر ناگزیر ہے پھر اہل علم کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنا کتنی سخت محرومی کی بات ہے حالانکہ اتباع کا منصب یہ تھا کہ علمائے حق میں سے جس سے عقیدت ہو اور اس کا عالم...

read more