خریدا ہوا مال واپس کیسے ہوگا؟ (57)۔
اکثر دوکانوں پر یہ بورڈ آویزاں ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔ تو یہ بات اکثر دوکانداروں میں بالکل بجا لکھی ہوتی ہے اگر وہ کوئی ایسی چیز فروخت کررہے ہوں جوخریدنے کے بعد کے بعد ناکارہ ہوجاتی ہو یا پھر قیمت کم ہوجاتی ہو۔
مثلاً اگر کوئی شخص دودھ بیچ رہا ہے تو یقینی بات ہے کہ دودھ تھوڑے ہی وقت میں خراب ہوجاتا ہے اسی طرح فروٹ، سبزی یا پھر کیک وغیرہ۔ اس طرح کی جتنی بھی چیزیں ہیں جو تھوڑی ہی دیر بعد خراب ہوجاتی ہیں اُنکو واپس نہیں لینا چاہئے بلکہ خریدار کو چاہئے کہ وہ موقع پر تسلی کرلیا کرے۔
البتہ ایسی چیزیں جو بار بار استعمال ہوتی ہیں اور ایک یا دو دن میں انکا استعمال ختم نہیں ہوجاتا مثلاً موبائل، کمپیوٹر یا گاڑی وغیرہ۔ تو ایسی چیزوں کے بارہ میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر گاہک نے مکمل طور پر تسلی کرکے نہ لی ہو اور جلد بازی میں یہ چیز خرید کرلی ہو پھر دوسرے یا تیسرے دن گاہک کو معلوم ہو کہ اسمیں کوئی خرابی ہے جو پہلے سے موجود تھی۔ تو اب شریعت اسکو حق دیتی ہے کہ وہ یہ عیب بتا کر چیز کو واپس کردے۔
اگر دوکاندار خوشی خوشی اس چیز کو واپس لے لیتا ہے تو اُسکے مال میں برکت ہوگی۔ اس عمل کو خیار عیب کہا جاتا ہے یعنی خریدار کو یہ اختیار ہوتا ہے تم دو دن مزید بھی تسلی کرلے اگر کوئی بھی عیب ہوا یا نقص ہواتو یہ چیز واپس ہوجائیگی۔
تو اس طرح معیوب چیز کو واپس لے لینا دوکاندار کا شرعی فریضہ ہے۔اسکی شرعی صورت یہ ہوتی ہے کہ اگر گاہک کوئی چیز لے کر گیا اور اگلے ہی دن واپس لے کر آگیا اور بتایا کہ اسمیں فلاں عیب ہے تو شریعت کہتی ہے کہ دوکاندار پورے پیسے واپس کرے اور اپنی چیز رکھ لے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ گاہک اسی طرح قبول کرلے اور واپس نہ کرے۔ تیسری صورت کہ گاہک اگر یہ کہے کہ اس عیب کی وجہ سے مجھے پانچ سو واپس کرو اور چیز بھی میں نے ہی رکھنی ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔
البتہ اس میں یہ چند باتیں یاد رکھیں :۔
عیب وہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے چیز کی قیمت میں کمی ہوجائے۔ مثلاً اگر موٹر سائیکل خرید کیا اور اُس میں کسی کونے سے ہلکا سا رنگ اترا ہوا تھا تو یہ عیب نہیں کہلائے گا کیونکہ اتنی چھوٹی سی چیز سے قیمت پر فرق نہیں پڑتا۔ یا اسی طرح کی دیگر مثال سمجھ لیں۔
دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی عیب پہلے سے بتا دیا تو اُسکی وجہ سے بھی واپسی نہ ہوگی۔ مثلاً اگر دوکاندار نے بتایا کہ اس موبائل میں فلاں فلاں خرابی موجود ہے اور پھر گاہک نے وہی موبائل خرید کر لیا تو اب یہ واپس نہیں کرسکتا۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر وہ عیب خریداری کے وقت موجود نہیں تھا بلکہ گاہک کی کوتاہی اور غلطی سے وہ عیب پیدا ہوگیا تب بھی یہ چیز واپس نہیں ہوگی۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اگر دوکاندار یہ کہے کہ میرے پاس یہ عیب نہیں تھا بلکہ لینے کے بعد تم نے خراب کیا ہے ۔ تو اس صورت میں دوکاندار سے قسم لی جائیگی۔ اگر وہ اللہ کی قسم کے ساتھ یہ بات کہہ دے کہ جب میں نے یہ چیز تمہیں فروخت کی تب یہ عیب نہیں تھا ۔ تو پھر اس قسم کو تسلیم کیا جائے گا ۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھائے گا تو خود ہی اسکا خمیازہ بھگتے گا اور اللہ کے ہاں اسکی سخت پکڑ ہوگی ۔ البتہ معاملہ اسی کے فیصلہ پر ہوجائیگا ۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

