حکیم الامت رحمہ اللہ کا مخالف سے حکیمانہ برتائو
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے مواعظ سے امت کو جو بے مثال نفع پہنچا وہ محتاجِ بیان نہیں۔۔۔۔ حضرت کے مواعظ کا فیض آج تک جاری ہے اور جن حضرات نے ان کا مطالعہ کیا ہو وہ جانتے ہیں کہ یہ مواعظ دین کی بیشتر ضروریات پر حاوی ہیں اور اصلاح و تربیت کے لیے بے نظیر تاثیر رکھتے ہیں۔۔۔۔
ایک مرتبہ جون پور میں آپ کا ایک وعظ ہونا تھا۔۔۔۔ وہاں بریلوی حضرات کا خاصا مجمع تھا، آپ کے پاس ایک بے ہودہ خط پہنچا جس میں دو چار باتیں کہی گئی تھیں، ایک تو یہ کہ ’’تم جولاہے ہو‘‘، دوسرے یہ کہ ’’جاہل ہو‘‘، تیسرے یہ کہ ’’کافر ہو‘‘ اور چوتھے یہ کہ ’’سنبھل کر بیان کرنا۔۔۔۔‘‘۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے وعظ شروع کرنے سے پہلے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قسم کا ایک خط میرے پاس آیا ہے، پھر وہ خط سب کے سامنے پڑھ کر سنایا اور فرمایا کہ ’’یہ جو لکھا ہے کہ ’’تم جولاہے ہو‘‘ تو اگر میں جولاہا ہوں بھی تو اس میں حرج ہی کیا ہے میں یہاں کوئی رشتہ ناتا کرنے تو نہیں آیا احکامِ الٰہی سنانے کے لیے حاضر ہوا ہوں سو اس کو قومیت سے کیا علاقہ؟
دوسرے یہ چیز اختیاری بھی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے جس کو جس قوم میں چاہا پیدا فرما دیا، سب قومیں اللہ کی بنی ہوئی ہیں اور سب اچھی ہیں اگر اعمال و اخلاق اچھے ہوں۔۔۔۔ یہ تو مسئلہ کی تحقیق تھی۔۔۔۔ رہی واقعہ کی تحقیق سو مسئلہ کی تحقیق کے بعد واقعہ کی تحقیق کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، لیکن پھر بھی اگر کسی کو تحقیقِ واقعہ کا شوق ہی ہو تو میں آپ کو اپنے وطن کے عمائد کے نام اور پتے لکھوائے دیتا ہوں ان سے تحقیق کر لیجئے معلوم ہو جائے گا میں ’’جولاہا ہوں یا کس قوم کا؟‘‘ اور اگر مجھ پر اطمینان ہو تو میں مطلع کرتا ہوں کہ میں جولاہا نہیں ہوں۔۔۔۔ رہا ’’جاہل ہونا‘‘ اس کا البتہ میں اقرار کرتا ہوں کہ میں ’’جاہل بلکہ اجہل ہوں‘‘ لیکن جو کچھ اپنے بزرگوں سے سنا ہے اور کتابوں میں دیکھا ہے اس کو نقل کرتا ہوں، اگر کسی کو کسی بات کے غلط ہونے کا شبہ ہو اس پر عمل نہ کرے اور ’’کافر ہونے‘‘ کو جو لکھا تو اس میں زیادہ قیل وقال کی حاجت نہیں، میں آپ صاحبوں کے سامنے پڑھتا ہوں:۔
اشھد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ
اگر میں نَعُوْذُ بِاﷲِ کافر تھا تو لیجئے اب نہیں رہا۔۔۔۔ آخر میں ’’سنبھل کر بیان کرنے‘‘ کی دھمکی دی گئی ہے، اس کے متعلق یہ عرض ہے کہ وعظ گوئی کوئی میرا پیشہ نہیں ہے، جب کوئی بہت اصرار کرتا ہے تو جیسا کچھ مجھے بیان کرنا آتا ہے بیان کر دیتا ہوں، اگر آپ صاحبان نہ چاہیں گے تو میں ہرگز بیان نہ کروں گا۔۔۔۔
رہا سنبھل کر بیان کرنا تو اس کے متعلق صاف صاف عرض کیے دیتا ہوں کہ میری عادت خود ہی چھیڑ چھاڑ کی نہیں ہے۔۔۔۔ قصداً کبھی کوئی ایسی بات نہیں کرتا، جس میں کسی گروہ کی دل آزاری ہو یا فساد پیدا ہو، لیکن اگر اصولِ شرعیہ کی تحقیق کے ضمن میں کسی ایسے مسئلہ کی ذکر کی ضرورت ہی پیش آ جاتی ہے جس کا رسومِ بدعیہ سے تعلق ہے تو پھر میں رکتا بھی نہیں، اس لیے کہ یہ دین میں صریح خیانت ہے۔۔۔۔
سب باتیں سننے کے بعد اب بیان کے متعلق جو آپ صاحبوں کی رائے ہو اس سے مطلع کر دیجیے! اگر اس وقت کوئی بات کسی کے خلاف طبع بیان کرنے لگوں تو فوراً مجھ کو روک دیا جائے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر کوئی ادنیٰ شخص بھی مجھے روکے گا تو میں اپنے بیان کو فوراً منقطع کر دوں گا اور بیٹھ جائوں گا۔۔۔۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہی صاحب روک دیں جنہوں نے یہ خط بھیجا ہے، اگر خود کہتے ہوئے انہیں شرم آئے یا ہمت نہ ہو تو چپکے سے کسی اور ہی کو سکھلا پڑھا دیں ان کی طرف سے وہ مجھے روک دیں۔۔۔۔ یہ سن کر ایک معقولی مولوی صاحب جو بدعتی خیال کے تھے اور جن کا وہاں بہت اثر تھا، کڑک کر بولے ’’یہ خط لکھنے والا کوئی حرام زادہ ہے، آپ وعظ کہیے! آپ کیسے فاروقی ہیں؟‘‘۔
حضرت نے فرمایا:’’میں ایسی جگہ کا ’’فاروقی ہوں‘‘ جہاں کے ’’فاروقیوں‘‘ کو یہاں کے لوگ ’’جولاہے‘‘ سمجھتے ہیں۔۔۔۔‘‘۔
جب سارا مجمع خط لکھنے والے کو برا بھلا کہنے لگا، خاص طور سے وہ مولوی صاحب فحش فحش گالیاں دینے لگے تو حضرت والا نے روکا کہ گالیاں نہ دیجیے، مسجد کا تو احترام کیجیے۔۔۔۔ پھر حضرت والا کا وعظ ہوا اور بڑے زور شور کا وعظ ہوا، اتفاق سے دورانِ وعظ میں بلاقصد، کسی علمی تحقیق کے ضمن میں کچھ رسوم و بدعات کا ذکر چھڑ گیا پھر تو حضرت والا نے بلاخوف لومۃ لائم خوب ہی رد کیا، لوگوں کو یہ اختیار دے چکے تھے کہ وہ چاہیں تو وعظ روک دیں، لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔۔
وہ معقولی مولوی صاحب شروع شروع میں تو بہت تحسین کرتے رہے اور بار بار سُبْحَانَ اﷲ… سُبْحَانَ اﷲ… کے نعرے بلند کرتے رہے، کیوں کہ اس وقت تصوف کے رنگ پر بیان ہو رہا تھا، لیکن جب رد بدعات پر بیان ہونے لگا تو پھر چپ ہو گئے، مگر بیٹھے سنتے رہے۔۔۔۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل تھا، کیوں کہ بعد کو معلوم ہوا کہ وہ ایسے کٹر اور سخت ہیں کہ جہاں کسی واعظ نے کوئی بات خلافِ طبع کہی انہوں نے وہیں پکڑ کر منبر سے اتار دیا، لیکن اس وقت انہوں نے دَم نہیں مارا، چپکے بیٹھے سنتے رہے، لیکن جب وعظ ختم ہوا اور مجمع رخصت ہونے کے لئے کھڑا ہو گیا تو اس وقت ان مولوی صاحب نے حضرت والا سے کہا کہ ان مسائل کے بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ اس پر ایک دوسرے ذی اثر مولوی صاحب (جو خود بدعتی خیال کے تھے) بڑھے اور جواب دینا چاہا، لیکن حضرت والا نے انہیں روک دیا کہ خطاب مجھ سے ہے آپ جواب نہ دیں مجھے عرض کرنے دیں،
پھر حضرت والانے ان معقولی مولوی صاحب سے فرمایا کہ آپ نے یہ بات پہلے مجھ سے نہ فرمائی، ورنہ میں احتیاط کرتا، میں نے تو جو بیان کیا ضروری ہی سمجھ کر کیا، مگر اب کیا ہو سکتا ہے اب تو بیان ہو چکا ہے، ہاں ایک صورت اب بھی ہو سکتی ہے، وہ یہ کہ ابھی تو مجمع موجود ہے آپ پکار کر کہہ دیجیے کہ صاحبو! اس بیان کی کوئی ضرورت نہ تھی، پھر میں آپ کی تکذیب نہ کروں گا اور آپ ہی کی بات اخیر بات رہے گی۔۔۔۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے اور مولوی صاحب وہاں سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔
ان کے چلے جانے کے بعد سب لوگ ان کو برا بھلا کہنے لگے، جب بہت شوروغل ہوا تو حضرت والا نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ:
’’صاحب ایک پردیسی کی وجہ سے آپ مقامی علماء کو ہرگز نہ چھوڑیں، میں آج مچھلی شہر جا رہا ہوں، اب آپ صاحبان یہ کریں اور میں ان صاحب کو بالخصوص خطاب کرتا ہوں کہ جنہوں نے خط بھیجا ہے، وہ میرے بیان کا رد کرا دیں پھر دونوں راہیںسب کے سامنے ہوں گی جو جس کو چاہے اختیار کرے، فساد کی ہرگز ضرورت نہیں۔۔۔۔‘‘
پھر ان دوسرے مولوی صاحب نے جو بدعتی خیال کے ہونے کے باوجود حمایت کے لیے آگے بڑھے تھے، کھڑے ہو کر فرمایا کہ:’’صاحبو! آپ جانتے ہیں کہ میں مولودیہ بھی ہوں، قیامیہ بھی ہوں، مگر انصاف اور حق یہ ہے کہ جو تحقیق آج مولوی صاحب نے بیان فرمائی ہے، صحیح وہی ہے۔۔۔۔‘‘ (اشراف السوانح: ۱/۲۸تا۷۲)
