حوالہ کب مانگنا چاہئے؟ (65)۔
ہر چیز کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کا شوق رکھنے والے لوگ بعض اوقات اتنا غلو کرلیتے ہیں کہ جینا محال ہوتا ہے ۔ حالانکہ حوالہ کی ضرورت کے متعلق یہ بات یاد رکھیں حوالہ تبھی مانگا جاتا ہے جب:۔
۔1) دینی مسئلہ اخذ کرناہو۔
۔2) قرآن و حدیث یا کوئی قول مذکور ہو۔
۔3)یا پھر دین اسلام کے خلاف کوئی بات ہو۔۔
اسکی مثاں یوں سمجھیں کہ اگر کسی عالم دین نے یہ مشورہ دیا کہ کاروباری لوگوں کو رات عشاء کے بعد دوکانیں بند کردینی چاہئیں۔ تو اس بات کے لئے حوالہ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک عالم دین کا فقط مشورہ ہے۔ جسکا جی چاہے لے لے اور جسکا جی چاہے چھوڑدے۔ دوسری مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے اور پھر اُس فرمان کا حوالہ نہیں دیتا تو اسکی پکڑ ہوگی اور باز پرس کرنی پڑےگی۔ تیسری مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص نے مضمون لکھا اور پورے مضمون میں یہ بات ثابت کی کہ نکاح سے پہلے رخصتی کرنا جائز ہے۔العیاذ باللہ۔ اب اگرچہ یہ اُسکا ذاتی مضمون اور رائے ہے مگر اس سے خلاف شریعت ایک بات ثابت ہورہی ہے تو اُس سے حوالہ مانگا جائےگا۔
یہ تین اہم باتیں آپ یاد رکھ لیں اور اسکے علاوہ جب بھی کوئی بات ملے تو اُسکوہمیشہ کھلے دل سے دیکھیں کہ اگر آپ کو سمجھ میں آتی ہو تو قبول کرلیں ورنہ چھوڑدیں۔ بالخصوص وظائف اور عملیات کے متعلق یہ بات یاد رکھیں کہ اکثر بزرگوں کے تجربات سے وظائف ثابت ہوتے ہیں تو اگر وہ خلاف شریعت نہ ہوں تو اُنکو بغیر حوالہ کے بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح بعض لوگ واقعات کا بھی حوالہ مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ واقعات اکابر سے کبھی بھی کوئی دینی مسئلہ اخذ نہیں ہوتا۔اور نہ ہی وہ دلیل بن سکتےہیں۔ اس لئے ایسے واقعات جن میں کفر و شرک یا کسی حرام کام کا ذکر نہ ہو وہ بغیر حوالہ کے بھی فقط نصیحت کے لئے قبول کیے جاسکتےہیں۔
تیسرے نمبر پر یہ بات کہ اگر کوئی مشورہ دینا چاہے تو اُسکو مشورہ کی حد تک قبول کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر دل چاہے تو مشورہ لے لیجئے ورنہ رد کردیجئے۔
ایک مثال لے لیجئے۔۔۔ 
ایک مولوی صاحب سے کسی نمازی نے پوچھ لیا کہ میرے امتحان ہورہے ہیں تو کوئی وظیفہ بتا دیجئے۔ مولوی صاحب نے اسمائے حسنیٰ میں سے دو اسم کا وظیفہ بتا دیا۔ وہ صاحب بپھر گئے کہ اب جلدی کریں کہ اس کا حوالہ بتائیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ ذکر ہے اور ذکر سے مشکلات آسان ہوتی ہے۔ مگر وہ صاحب حوالہ کے اتنے حریص تھے کہ فتنہ بپا کردیااور کہنے لگے کہ یہی دو اسم کون سی حدیث میں ثابت ہیں؟؟؟تو دوستو! یہ حوالہ فوبیا ختم کریں۔ ورنہ کل کو عام رسمی گفتگو کی بھی ہر بات کا حوالہ مانگا جائے گا جو کہ دینِ اسلام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔
نوٹ : یہ ’’آج کی بات‘‘ ایک بہت ہی مفید سلسلہ ہے جس میں حذیفہ محمد اسحاق کی طرف سے مشاھدات،خیالات اور تجربات پر مبنی ایک تحریر ہوتی ہے ۔ یہ تحریر ہماری ویب سائٹ
Visit https://readngrow.online/ for FREE Knowledge and Islamic spiritual development.
پر مستقل شائع ہوتی ہے ۔ ہر تحریر کے عنوان کے آگے ایک نمبر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس اسکی قسط کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کون سی قسط ہے ۔ پچھلی قسطیں بھی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں ۔ اگر کوئی پیغام یا نصیحت یا تحریر آپکو پسند آتی ہے تو شئیر ضرور کریں ۔ شکریہ ۔
مزید اپڈیٹس کے لئے ہمارے واٹس ایپ چینل کو ضرور فالو کریں
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M

