حق کا راستہ واضح ہے
محترم مولانا مشتاق احمد صاحب رحمہ اللہ (چنیوٹ) تحریر فرماتے ہیں:۔
دنیوی معاملات میں قابلیت کا سکہ چلتا ہے ، اگر قابلیت کے ساتھ ساتھ وسائل بھی میسر ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہے لیکن اللہ جل شانہ کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ، بارگاہ الٰہی میں قابلیت کی جگہ قبولیت کا اصول کار فرما ہے اس کی طرف حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال و دولت کو نہیں دیکھتے بلکہ تمہارے اخلاص او ر اعمال کو دیکھتے ہیں ‘‘جس شخص میں جتنا زیادہ اخلاص ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ اتنا ہی معتبر ہوگا۔۔۔
تاریخ عالم پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون ،ہامان ، قارون ، شداد وغیرہ قابلیت اور مال وزر میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے لیکن چونکہ ان میں ایمان و اخلاص نہ تھا اس لئے بار گاہ الٰہی میں قبولیت نہ پا سکے اور اپنی آخرت تباہ کر بیٹھے ، ان لوگوں کو اپنے علمی و عملی کمالات پر کمال درجہ ناز تھا،۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو لہب علم و دانش میں کسی سے کم نہ تھا، ابو جہل کی کنیت ہی ابو الحکم تھی لیکن ان کی دانش ، ان کا مال دولت ان کے کسی کام نہ آیا۔
دورِ حاضر کی علمی دنیا کا جائزہ لیا جائے تو بھی ہماری بات کی تائید ہوتی ہے۔۔۔ غلام احمد پرویز‘ نیاز فتح پوری‘ اسلم جیراج پوری‘ حکیم نور الدین بھیروی جیسے لوگ علم میں اکثر لوگوں سے کم نہیں تھے لیکن چونکہ دین کو اپنی اغراض فاسدہ کے تحت سمجھنا اور سمجھانا چاہتے تھے اس لئے پہلے تینوں منکر حدیث بنے اور احادیث کا انکار کرکے راہ ضلالت اختیار کی اور ہزاروں افراد کی گمراہی کا باعث بنے۔۔۔ حکیم نور الدین بھیروی بھی آزاد خیال شخص تھا۔۔۔ اس لئے بڑی فاضل شخصیات کا شاگرد ہونے کے باوجود مرزا قادیانی کو نبی تسلیم کیا اور مرتد ہونے کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کیلئے کوشاں رہے۔۔۔
حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو اگرچہ جنت کی بشارت دنیا میں ہی مل چکی تھی لیکن ان پر خوف خدا کا اتنا غلبہ تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بسا اوقات ایک تنکا ہاتھ میں لیتے اور فرماتے کہ کاش! میں یہ تنکا ہوتا‘ کبھی فرماتے کاش! مجھے میری ماں نے جنا ہی نہ ہوتا‘ ایک مرتبہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے ’’انما اشکو بثی وحزنی الی اللّٰہ‘‘ پر پہنچے تو روتے روتے آواز نکلی‘ تہجد کی نماز میں بعض مرتبہ روتے روتے گر جاتے اور بیمار ہوجاتے تھے۔۔۔
اس طرح حضرات صحابہ کرام‘ تابعین‘ تبع تابعین اور اولیائے اُمت علیہم الرضوان کے واقعات سے سیرو تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں۔۔۔
وہ شخص عقلمند بھی ہے اور کامیاب بھی ہے جو بارگاہ الٰہیہ میں قبولیت کی فکر میں رہتا ہے اور دل میں خوف خدا رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت پانے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ بھی قرآن مجید میں مذکور ہے ’’انما یتقبل اللہ من المتقین‘‘بے شک اللہ تعالیٰ متقین سے ہی قبول کرتے ہیں‘
انسان تقویٰ اختیار کرے‘ جلوت و خلوت میں‘ معاشرتی و کاروباری امور میں خوف خدا کو ملحوظ رکھے‘ جائز ناجائز‘ حلال و حرام کا خیال رکھے تو وہ یقینا بارگاہ الٰہیہ میں قبولیت اور اس کے نتیجہ میں نجات پائے گا۔۔۔ ا
للہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازیں‘ آمین۔۔۔ (بشکریہ نصر ۃ العلوم)
