حق دستیاب بھی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے ہوگا
صحابہ رضی اﷲ عنہم کا معیارِ حق اور بالاتر از تنقید ثابت ہو جانے کے بعد یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کے معیارِ حق و باطل کی کسوٹی ہونے کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ جیسے کسوٹی کا پتھر سونے کے کھرے اور کھوٹے ہونے کو تو نمایاں کرتا ہے مگر وہ نہ کھرا ہوتا ہے نہ کھوٹا۔ ایسے ہی حضراتِ صحابہ رضی اﷲ عنہم بھی بایں معنیٰ معیار حق ہوں کہ دوسروں کا حق و باطل تو ان سے کھل جائے مگر وہ خود معاذاﷲ نہ حق ہوں نہ باطل۔ کیونکہ انہیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ ملا کر اُمت کیلئے معیارِ حق بتلایا ہے اور ظاہر ہے کہ خود اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے معیارِ حق ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ حق و صداقت کا مجسم نمونہ اور سرتاپا صدق و امانت ہیں۔ جن میں باطل کی آمیزش کا شائبہ بھی ممکن نہیں۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی جماعت کے معیارِ حق ہونے کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے کہ وہ بھی خالص حق کے پیکر ہوں اور حق و صداقت کا مجسم نمونہ ہوں جس میں باطل کا گذر نہ ہو۔
اس صورت میں ظاہر ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے معیارِ حق ہونے کی شان یہ نکلتی ہے کہ ان کو سامنے رکھ لینے پر حق و باطل میں امتیازِ کامل بھی پیدا ہو جائے اور حق دستیاب بھی ہو جائے۔
کیونکہ جب وہ کامل نمونہ حق ٹھہرے اور وہی اس اُمت کے اولین نمونہ حق بھی ہوئے تو حق پہچانا بھی انہی سے جائے گا اور دستیاب بھی انہی سے ہوگا۔ بشرطیکہ اس کی پیروی کی جائے۔ اندریں صورت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے معیار حق ہونے اور اُمت کے مختلف الخیال فرقوں کی کسوٹی ہونے کے یہ معنی نکل آئے کہ جو فرقہ ان کی اطاعت کا التزام کرے گا وہی حق پر ہوگا اور اس کسوٹی پر پورا اُترے گا اور جو ان سے منحرف ہو کر خلاف راہ چلے گا وہی باطل پر ہوگا۔
اور ظاہر ہے التزام اطاعت کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ ان پر جرح و تنقید کرنے کی بجائے ان کی تصویب کی جائے۔ ان کی خطائیں پکڑنے اور ان پر گرفتیں کرنے کی بجائے ان کی توصیف کی جائے۔ ان سے بدظنی کی بجائے حسنِ ظن رکھا جائے اور ان پر امور قبیحہ مثل جھوٹ وغیرہ کی تہمتیں دھرنے کی بجائے انہیں صادق و امین سمجھا جائے۔ اگر ان کے بعد اُمت کے طبقات کو پیروی کا یہ درجہ بھی حاصل نہ ہو اور اس انداز سے وہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے نمونوں کو سامنے نہ رکھیں تو یقینا نہ انہیں حق حاصل ہوسکتا ہے اور نہ ان کے دلوں میں حق و باطل میں امتیاز ہی پیدا ہوسکتا ہے۔
ناقدین صحابہ رضی اﷲ عنہم کا دین سلامت نہیں رہ سکتا
کیونکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اس اُمت کے مومنین اوّلین اور اُمت کے حق میں دین کے مبلغین اوّلین ہیں۔ دین کا کوئی حصہ کسی سے پہنچا ہے اور کوئی کسی سے۔ قرآن کریم کا کوئی ٹکڑا کسی سے ملا ہے اور کوئی کسی سے۔ جن کو جامعینِ قرآن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے جمع فرمایا ہے تو کسی ایک صحابی رضی اﷲ عنہ کی پیروی سے انحراف یا کسی ایک صحابی رضی اﷲ عنہ پر جرح اور نکتہ چینی درحقیقت دین کے اس ٹکڑے سے انحراف ہوگا جو اس سے روایت ہو کر اُمت تک پہنچا ہے اگر راوی مجروح اور ناقابل پیروی ہے تو اس کا روایت کردہ حصہ دین بھی مجروح اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ اگر معاذ اﷲ یہ نکتہ چینی اور جرح اور عدم پیروی ان حضرات کے حق میں یونہی جائز رکھی جائے اور وہ سب میں دائروسائر اور جاری رہے۔
جس کا ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سوا کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھو اور نہ کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہو تو دین کا کوئی ایک حصہ بھی غیر مجروح اور معتبر باقی نہیں رہ سکتا اور اُمت کا کوئی ایک فرد بھی دین دار یا مدعی دین نہیں بن سکتا۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر تنقید کو جائز سمجھنے والے بلکہ اسے اپنے دین کا موضوع بنانے والے پہلے اپنے دین کی خبر لیں کہ وہ باقی رہا کہ وہ ختم ہوگیا۔ بہرحال التزامِ طاعت اور ’’ذہنی غلامی‘‘ کا ادنیٰ ترین مرتبہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ساتھ قلبی حسنِ ظن اور ان پر جرح و تنقید سے روک تھام ہے۔ انہیں خطا کار سمجھ کر اطاعت شعار بننا ممکن نہیں کیونکہ خطا کو خطا سمجھ کر اس کی اطاعت نہیں کی جاتی۔
