حقوق العباد کے متعلق ہدایات اور سنتیں
اولاد کے حقوق
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ: ٭ مسلمانو! خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتائو کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔۔۔۔ ٭ جو مسلمان اپنی لڑکی کی عمدہ تربیت کرے اور اس کو عمدہ تعلیم دے اور اس کی پرورش کرنے میں اچھی طرح صرف کرے وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے گا۔۔۔۔ ٭ مسلمانو! اپنی اولاد کی تربیت اچھی طرح کیا کرو۔۔۔۔ (طبرانی)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔۔۔۔ (مشکوٰۃ)
٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو۔۔۔۔ جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور نماز کے لیے ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ الگ کردو۔۔۔۔ (مشکوٰۃ شریف)
٭ لوگو! تم قیامت میں اپنے اور باپوں کے نام سے پکارے جائو گے۔۔۔۔ پس تم اپنا نام اچھا رکھا کرو۔۔۔۔ (ابودائود)
جس نام میں عبدیت اور خدا کی تعریف کا ظہور ہوتا ہے وہ نام اللہ کو بہت پیارا ہے۔۔۔۔ (بخاری)
٭ سب سے مقدم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا ضروری ہے پھر جو لوگ رشتے میں قریب ہوں ان پر خرچ کرنا چاہیے۔۔۔۔ (طبرانی)
٭ ایک دینار جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کیا جائے اور ایک دینار کسی غلام کو آزاد کرانے میں اور ایک دینار کسی مسکین کو دیا جائے اور ایک دینار اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے تو ان سب میں اجر و ثواب کے لحاظ سے افضل وہ دینار ہے جو اہل و عیال کے نان نفقہ پر خرچ کیا جائے (یعنی بچوں پر خرچ کرنا بھی ثواب اور عبادت کے درجہ میں ہے اس لیے ان پر تنگی نہ کی جائے)
اولاد کا نام اور ادب
حضرت ابو وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تم پیغمبروں کے نام پر نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ پیارا نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے اور سب سے سچا نام حارث اور ہمام ہے۔۔۔۔ (ابودائود۔۔۔۔ نسائی)
حضرت حبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن دو مسلمانوں کے تین بچے سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے مرگئے۔۔۔۔ ان کو قیامت کے دن لاکر جنت کے دروازے پر کھڑا کرکے کہا جائے گا بہشت میں داخل ہو۔۔۔۔ وہ کہیں گے (ہم جب بہشت میں داخل ہوں گے جب) ہمارے ماں باپ بھی داخل ہوں اس پر ان سے یہ کہا جائے گا اچھا تم بھی بہشت میں داخل ہو اور تمہارے ماں باپ بھی۔۔۔۔ (طبرانی کبیر)
لڑکیوں کی پرورش
حدیث شریف میں ہے کہ جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔۔۔۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کو سایہ میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔۔ یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا۔۔۔۔ قیامت تک خدا کی مدد اس کی شامل حال رہے گی۔۔۔۔ ٭ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔۔۔۔ (طبرانی)
اولاد صالح
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے مگر تین چیزیں کہ ان کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے۔۔۔۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) وہ علم جس سے نفع اُٹھایا جاتا رہے۔۔۔۔ (۳) صالح اور نیک اولاد جو اس کیلئے دُعا گو رہے۔۔۔۔ (ادب المفرد)
وصیت:۔حدیث شریف میں ہے کہ ہر مسلمان جس کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو اس پر یہ حق ہے کہ دو راتیں اس پر نہ گزریں مگر یہ کہ وصیت اس کے پاس موجود ہو۔۔۔۔ (۱) حدیث شریف میں ہے کہ اگر ایک بیٹے کو کوئی چیز دو تو دوسرے کو بھی ویسی ہی دو۔۔۔۔ ناانصافی بری بات ہے۔۔۔۔ (ترمذی)
ناجائز وصیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ کوئی مرد اور اسی طرح کوئی عورت ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں گزارتے ہیں پھر ان کے مرنے کا وقت قریب آتا ہے تو وصیت کے ذریعے ورثاء کو نقصان پہنچادیتے ہیں تو ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کے مضمون کی تائید میں قرآن شریف کی آیت پڑھی: ’’مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِیْ بِھَا اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍ (تا) وَذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمِ ط‘‘ (مسند احمد)
بھائی اور بہنوں کے حقوق بڑے بھائی۔۔۔۔ بہن اور بیٹیوں کا حق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائی پر ویسا ہے جیسا باپ کا حق بیٹے پر۔۔۔۔ (مشکوٰۃ۔۔۔۔ حیات المسلمین)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس نے پرورش کی دو یا تین بیٹیوں کی یا دو یا تین بہنوں کی تاآنکہ وہ اس سے جدا ہوجائیں (بیاہ شادی کے بعد) یا فوت ہوجائیں تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ دو انگلیاں (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔۔ ایک بیٹی یا ایک بہن کا بھی یہی حکم ہے)۔۔۔۔ (الادب المفرد)
یتیم کا حق یتیم پر رحم کرنا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو آدمی کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیکی یا بھلائی سے پیش آتا ہو میں اور وہ جنت میں پاس پاس ہوں گے جس طرح میرے ہاتھ کی یہ دو انگلیاں قریب قریب ہیں (دست مبارک کی دو انگلیاں ملاکر اشارہ فرمایا) (الادب المفرد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کے گھروں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے بدتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔۔۔۔ (ابن ماجہ) یتیم کا مال کھانے والے اس حال میں قبروں سے اٹھائے جائیں گے کہ ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہوں گے۔۔۔۔ (ابو یعلیٰ)
یتیم کی پرورش
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ میں اور سیاہ رخساروں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔۔۔۔ (یزید بن زریع اس حدیث کے ایک راوی نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ جس طرح یہ انگلیاں قریب قریب ہیں۔۔۔۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ عورت قیامت کے دن قریب قریب ہوں گے) اور سیاہ رُخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جس کا شوہر مرگیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو اور وہ عورت جاہ و جمال رکھتی ہو لیکن اس نے یتیم بچوں کی پرورش کے خیال سے دوسرا نکاح نہ کیا ہو اور اپنی خواہشات کو روکا ہو یہاں تک کہ اس کے بچے جوان ہوکر اس سے جدا ہوگئے ہوں یا مرگئے ہوں۔۔۔۔ (ابودائود۔۔۔۔ مشکوٰۃ۔۔۔۔ حیات المسلمین)
یتیم سے محبت و شفقت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور محض اللہ ہی کے لیے پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ گزرا ہے اتنی ہی نیکیاں اس کو ملیں گے اور جو شخص یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ احسان کرے جوکہ اس کے پاس رہتا ہو تو میں اور وہ جنت میں اس طرح رہیں گے جیسے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی پاس پاس ہے۔۔۔۔ (بہشتی زیور)
صلہ رحمی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تمہیں اپنے حسب نسب کے متعلق اس قدر علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے تم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرسکو (مثلاً باپ۔۔۔۔ دادا اور مائیں اور جدات اور ان کی اولاد۔۔۔۔ مرد اور عورت کہ انہیں پہچاننا اور ان کے نام یاد رکھنا ضروری ہیں کہ یہی ذوی الارحام کہلاتے ہیں اور انہیں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم ہے) کیونکہ صلہ رحمی کرنے سے قرابت داروں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ مال میں کثرت و برکت ہوتی ہے اور عمر میں زیادتی ہوتی رہتی ہے۔۔۔۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے چند قرابت دار ہیں اور عجب طرح کی طبیعت کے واقع ہوئے ہیں۔۔۔۔ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں۔۔۔۔ میں ان سے نیکی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے جہالت کرتے ہیں۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: کہ اگر واقعی میں تو ایسا ہی ہے جیسا کہتا ہے تو گویا تو ان کے منہ میں گرم گرم بھوبل ڈالتا ہے (یعنی تیری عطا ان کے حق میں حرام ہے اور ان کے شکم میں آگ کا حکم رکھتی ہے) اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان پر تیری مدد کرتا رہے گا جب تک تو اس صفت پر قائم رہے گا۔۔۔۔ (مسلم۔۔۔۔ الادب المفرد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ہر جمعرات کی شام یعنی جمعہ کی رات کو لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ رشتہ قرابت توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کرتا۔۔۔۔ (الادب المفرد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی شخص میں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب سہولت و آسانی سے لے گا اور اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا۔۔۔۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم )وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم کو محروم کرے اس کو دو۔۔۔۔ جو تم سے رشتہ توڑے اس سے ناطہ جوڑو۔۔۔۔ جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔۔۔۔ جب تو یہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ کو جنت میں لے جائے گا۔۔۔۔ (طبرانی والحاکم و قال صحیح الاسناد۔۔۔۔ الادب المفرد)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں کہ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کرنا عمر کو دراز کرتا ہے اور چھپا کر خیرات کرنا خدا کے غصہ کو فرو کرتا ہے۔۔۔۔ (الفضاعی عن ابن مسعود)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میرا نام اللہ ہے! میرا نام رحمن ہے۔۔۔۔ میں نے اپنے نام کو رحم سے مشتق کیا ہے جو اس کو ملائے گا میں اس کو ملائوں گا جو قطع رحمی کرے گا میں اس کو قطع کروں گا۔۔۔۔ (ترمذی۔۔۔۔ ابودائود)
شعبان کی پندرہویں شب میں تقریباً سب لوگ آزاد کردیئے جاتے ہیں (یعنی ان کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں) مگر قاطع رحم۔۔۔۔ ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی یہ تینوں اس رات میں بھی آزاد نہیں کیے جاتے۔۔۔۔ (بیہقی۔۔۔۔ ترمذی۔۔۔۔ ابودائود)
پڑوسی کے حقوق
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ مجھے اس پروردگار کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔۔۔۔ (صحیح مسلم۔۔۔۔ الادب المفرد)
حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ ہمسایہ کا حق یہ ہے کہ وہ بیمار ہوجائے تو اس کی بیمار پرسی کی جائے اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔۔۔۔ اگر وہ اُدھار مانگے تو اس کو قرض دے۔۔۔۔ اگر وہ ننگا ہے تو اس کو کپڑے پہنائے۔۔۔۔ اگر کوئی خوشی اس کو حاصل ہو تو مبارک باد دے۔۔۔۔ اگر کوئی مصیبت اس پر طاری ہو تو اس کو تسلی دے اور اپنے مکان کو اس کے مکان سے اونچا نہ کرے تاکہ وہ ہوا سے محروم نہ رہے اور اپنے چولہے کے دھوئیں سے اس کو ایذاء نہ پہنچائے۔۔۔۔ (طبرانی)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مسلمان بندہ مرتا ہے اور اس کے قریب تر پڑوسیوں میں سے تین آدمی اس پر خیر کی گواہی دیتے ہوں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے بندوں کی شہادت ان کے علم کے مطابق قبول کرلی اور جو کچھ میں جانتا ہوں اس کو میں نے بخش دیا۔۔۔۔ (مسند احمد)
دوست کا حق
ابن عون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے دوست کا اعزاز و اکرام اس طور نہ کرو جو اسے شاق گزرے۔۔۔۔ فائدہ: یعنی ہر شخص کے ساتھ اس کے مرتبہ کے شایان شان برتائو کرو۔۔۔۔ (الادب المفرد)
مسلمان کے حقوق حفاظت مسلم
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: پورا مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے ایذاء سے تمام مسلمان محفوظ رہیں اور پکا مہاجر وہ ہے جو ان تمام باتوں کو چھوڑدے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔۔۔۔ (بخاری و مسلم)
ترمذی و نسائی نے اس حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ کامل مؤمن ہے وہ جس کو لوگ اپنی جان و مال کے بارے میں امانت دار سمجھیں۔۔۔۔ (ترجمان السنۃ)
دوستوں کو جدا کرنا
حضرت عبدالرحمن بن غنم اور حضرت اساد بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بندگانِ خدا میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جو چغلیاں کھاتے ہیں اور دوستوں میں جدائی ڈلوادیتے ہیں۔۔۔۔ الخ (احمد و بیہقی)
دوستوں کی دل شکنی
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی (مسلمان) سے (خواہ مخواہ) بحث نہ کیا کرو اور نہ اس سے (ایسی) دل لگی کرو (جو اس کو ناگوار ہو) اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کرو۔۔۔۔ (ترمذی) فائدہ: البتہ اگر کسی عذر کے سبب پورا نہ کرسکے تو معذور ہے۔۔۔۔ چنانچہ زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس وقت وعدہ پورا کرنے کی نیت تھی مگر وہ وعدہ پورا نہیں کرسکا اور (اگر آنے کا وعدہ تھا تو) وقت پر نہ آسکا۔۔۔۔ (اس کا یہی مطلب ہے کہ کسی عذر کے سبب ایسا ہوگا) تو اس پر گناہ نہ ہوگا۔۔۔۔ (ابودائود۔۔۔۔ ترمذی۔۔۔۔ حیات المسلمین)
مشورہ دینا
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان) بھائی سے مشورہ لینا چاہے تو اس کو مشورہ دینا چاہیے۔۔۔۔ (ابن ماجہ)
لوگوں پر رحم کرنا
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔۔۔۔ (بخاری و مسلم)
مسلمانوں کو حقیر سمجھنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ آدمی کیلئے یہ شر کافی ہے کہ اپنے بھائی مسلمان کو حقیر سمجھے (یعنی اگر کسی میں یہ بات ہو اور کوئی شر کی بات نہ ہو تب بھی اس میں شر کی کمی نہیں) مسلمان کی ساری چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں۔۔۔۔ اس کی جان اور اس کا مال اور اس کی آبرو (یعنی نہ اس کی جان کو تکالیف دینا جائز نہ اس کے مال کا نقصان کرنا اور اس کی آبرو کو کوئی صدمہ پہنچانا۔۔۔۔ مثلاً اس کا عیب کھولنا۔۔۔۔ اس کی غیبت کرنا وغیرہ)۔۔۔۔ (مسلم۔۔۔۔ حیات المسلمین)
دوست سے ملاقات کرنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت کوئی مسلمان اپنے بھائی کی بیمار پرسی کرتا ہے یا ویسے ہی ملاقات کے لیے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو بھی پاکیزہ ہے اور تیرا چلنا بھی۔۔۔۔ تونے جنت میں اپنا مقام بنالیا ہے۔۔۔۔ (ترمذی)
حقوق مسلم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کے حقوق مسلمان پر چھ ہیں۔۔۔۔ (اس وقت انہی چھ کے ذکر کا موقع تھا) عرض کیا: یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) جب اس سے ملنا ہو تو اس کو سلام کر (۲) جب وہ دعوت دے کر بلاوے تو قبول کر (۳) جب تم سے خیرخواہی چاہے تو اس کی خیرخواہی کر (۴) چھینک لے اور الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کہہ ۔ (۵) جب بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کر (۶) جب مر جائے تو اسکے جنازے کے ساتھ جا۔
قطع تعلق
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ مؤمن کو تین دن تک چھوڑے رکھے۔۔۔۔ جب تین دن گزر جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے ملے اور سلام کرے اگر (دوسرے نے) سلام کا جواب دے دیا تو دونوں شریک اجر و ثواب ہوں گے اور اگر سلام کا جواب نہ دیا تو سلام کرنے والا بری الذمہ ہوگیا۔۔۔۔اس پر قطع تعلق کا گناہ نہیں رہا۔۔۔۔ (الادب المفرد۔۔۔۔ بخاری و مسلم)
مسلمانوں کی آبرو کا حق
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ایسے موقع پر ذلیل کرے گا جہاں اس کی ہتک ہو یا اس کی عزت میں کچھ کمی آئے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے مقام میں ذلیل کرے گا جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلبگار ہوگا اور جو شخص کسی ایسی جگہ مسلمان کی مدد کرے گا جہاں اس کی بے عزتی اور ہتک ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے مقام پر اس کی مدد کرے گا جہاں اس کو اللہ تعالیٰ کی مدد درکار ہوگی۔۔۔۔ (ابو دائود)
حق طریق (راستہ)
فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ راہوں پر بیٹھنے سے بچو اور اگر تم بیٹھنے سے باز نہ رہو تو راستہ میں بیٹھنے کا حق ادا کرو۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) راستہ کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آنکھوں کا بند کرنا (یعنی حرام چیزوں پر نظر نہ ڈالے) اور ایذاء سے باز رہنا (یعنی کوئی حرکت ایسی نہ ہو جس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہو۔۔۔۔ مثلاً راستہ تنگ کردے) اور سلام کا جواب دینا (جواب دینا اس لیے کہ سنت یہ ہے کہ چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے) اور لوگوں کو مشروع باتوں کا حکم کرے اور نامشروع باتوں سے منع کرے۔۔۔۔ (مشکوٰۃ)
حقوق مریض (عیادت)
مسلمانو! جب تم کسی بیمار کے پاس جائو تو اس کو دیر تک زندہ رہنے کی خوشخبری دو کیونکہ تمہارے کہنے سے کسی انسان کی زندگی دراز نہیں ہوسکتی۔۔۔۔ مگر بیمار کی طبیعت خوش ہوجائے گی۔۔۔۔
بیمار کی مناسب بیمار پرسی یہ ہے کہ مزاج پرسی کرنے والا اس کے پاس سے جلد اُٹھ آئے۔۔۔۔ (مسند الفردوس للدیلمی)
مسکین کا حق
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس نے میری مخلوق میں سے کسی ایسے کمزور کے ساتھ بھلائی کی جس کا کوئی کفایت (کفالت) کرنے والا نہیں تھا تو ایسے بندہ کی کفایت و کفالت کا میں ذمہ دار ہوں۔۔۔۔ (خطیب)
جانور کا حق:۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر حساس جانور جس کو بھوک۔۔۔۔ پیاس کی تکلیف ہوتی ہو اس کے کھلانے۔۔۔۔ پلانے میں ثواب ہے۔۔۔۔ (بخاری و مسلم)
حقوق حاکم و محکوم
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بادشاہ روئے زمین پر (مخلوق پر رحمت و شفقت کرنے میں) خدا کا سایہ ہوتا ہے۔۔۔۔ خدا کے بندے جو مظلوم ہوں اس سایہ میں پناہ لیتے ہیں۔۔۔۔ اگر وہ انصاف کرے تو اس کو ثواب دیا جاتا ہے اور رعیت پر اس کا شکر ادا کرنا واجب ہوتا ہے اور اگر وہ ظلم کرے یا خدا کی امانت میں خیانت کرے تو بارِ گناہ اس پر ہے اور رعیت کو صبر کرنا لازم ہے۔۔۔۔ (بیہقی۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ مسلمانو! اپنے حکمرانوں کو برا نہ کہو اور خدا سے ان کی بھلائی کی دُعا مانگا کرو کیونکہ ان کی بھلائی میں تمہاری بھلائی ہے۔۔۔۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمانو! تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی نسبت سوال کیا جائے گا۔۔۔۔ جو آدمی لوگوں پر حکومت کرتا ہے وہ ان کا راعی ہے اور لوگ اس کی رعیت ہیں۔۔۔۔ پس حاکم سے اس کی رعیت کی نسبت باز پرس کی جائے گی۔۔۔۔ ہر آدمی اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور گھر والے اس کی رعیت ہیں۔۔۔۔ پس ہر آدمی سے اس کے گھر والوں کی نسبت باز پرس کی جائے گی۔۔۔۔ ہر عورت اپنے خاوند کے گھر کی راعی ہے اور خاوند کا گھر اس کی رعیت ہے۔۔۔۔ پس ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کی نسبت باز پرس کی جائے گی۔۔۔۔ ہر نوکر اپنے آقا کے مال و اسباب پر راعی ہے اور آقا کا مال و اسباب اس کی رعیت ہے۔۔۔۔ پس ہر نوکر سے اس کے آقا کے مال و اسباب کی نسبت باز پرس کی جائے گی۔۔۔۔ (مسند احمد۔۔۔۔ بخاری و مسلم۔۔۔۔ ابودائود۔۔۔۔ ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مسلمانو! جب تمہارے حاکم نیک دل ہوں اورتمہارے امیر فیاض ہوں اور تمہارے معاملات کی بنیاد مشورہ پر ہو تو زمین کی سطح پر تمہارا رہنا زمین کے پیٹ میں جانے سے بہتر ہے اور جب تمہارے حاکم شریر ہوں اور تمہارے امیر بخیل ہوں اور تمہارے معاملات کا فیصلہ عورتوں کی رائے پر ہو تو زمین کے پیٹ میں تمہارا جانا زمین پر رہنے سے بہتر ہے۔۔۔۔ (ترمذی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ حاکم کے حکم کو سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے خواہ حکم پسند نہ آئے جب تک حاکم کسی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ کسی گناہ کا حکم دے تو مسلمان پر اس کی اطاعت واجب نہیں۔۔۔۔ (بخاری و مسلم۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ گناہ کے کام میں کسی کی اطاعت واجب نہیں۔۔۔۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں واجب ہے۔۔۔۔ (بخاری و مسلم۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تم پر ایسے حاکم مقرر کیے جائیں گے جو اچھے کام بھی کریں گے اور برے کام بھی کریں گے پس جس شخص نے انکار کیا یعنی اس کے برے فعل کی نسبت اس کے منہ پر کہہ دیا کہ تمہارا یہ فعل شرع کے خلاف ہے اور وہ اپنے فرض سے بری ہوگیا اور جس شخص نے ایسا نہ کیا یعنی اس کو اتنی جرأت نہ ہوئی کہ وہ زبان سے کہہ دے لیکن دل سے اس فعل کو برا سمجھا وہ سالم رہا یعنی اس کے گناہ میں شریک ہونے سے سالم (محفوظ) رہا لیکن جو شخص اس کے فعل پر راضی ہوا اور ان کی پیروی کی وہ ان کے گناہ میں شریک ہوا۔۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: کیا ان سے لڑیں یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں جب تک وہ نماز پڑھیں نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھیں۔۔۔۔ (مسلم۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت وائل بن حجر سلمہ بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کہ اے خدا کے نبی! آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس معاملہ میں کیا فرماتے ہیں کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارے حقوق سے انکار کردیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو اس لیے کہ ان پر وہ بات فرض ہے جو انہوں نے اپنے ذمہ لی ہے اور تم پر وہ چیز فرض ہے جو تم نے اُٹھائی ہے۔۔۔۔ (مسلم۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظالم امیر کی دُعا قبول نہیں ہوتی۔۔۔۔ (حاکم)
دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخصوں کا کلمہ بھی قبول نہیں ہوتا۔۔۔۔ ایک ان میں سے وہ حاکم ہے جو اپنی رعایا پر ظلم کرتا ہے۔۔۔۔ (طبرانی)
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس بندہ کو اللہ تعالیٰ رعایا کی نگہبانی سپرد کرے اور وہ بھلائی اور خیرخواہی کے ساتھ نگہبانی نہ کرے وہ بہشت کی بو نہ پائے گا۔۔۔۔ (بخاری و مسلم۔۔۔۔ مشکوٰۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دُعا کرتے سنا ہے کہ اے اللہ! جس شخص کو میری اُمت کے کسی کام کا والی اور متصرف بنایا گیا ہو اور وہ میری اُمت پر مشقت اور مصیبت ڈالے تو تو بھی اس پر مشقت و مصیبت ڈال اور جو شخص (حاکم و والی) میری اُمت پر رحم اور نرمی کرے تو تو بھی اس پر رحم و نرمی کر۔۔۔۔ (مسلم و مشکوٰۃ)
فریقین کا فیصلہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب دو آدمی تمہاری طرف قضیہ پیش کریں (اور ان میں ایک شخص اظہار مدعا کرچکے) تو جب تک تم دوسرے کی بات نہ سن لو۔۔۔۔ اوّل شخص کے موافق فیصلہ نہ کرو کیونکہ یہ صورت اس بات کے لائق تر ہے کہ تمہارے لیے قضیہ کی پوری کیفیت ظاہر ہو جائے۔۔۔۔ (ترمذی)
خدمت گار کا حق
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی و غلام تمہارے بھائی ہیں۔۔۔۔ خدا نے ان کو تمہارے قبضہ میں دے رکھا ہے بس تم میں سے جس کسی کے قبضہ و تصرف میں خدا نے کسی کو دے رکھا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اس پر کام کا اتنا ہی بوجھ ڈالے جو اس کے سہار سے زیادہ نہ ہو اور اگر وہ اس کام کو نہ کر پا رہا ہو تو خود اس کام میں اس کی مدد کرے۔۔۔۔ (بخاری و مسلم۔۔۔۔ الادب المفرد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور کا ارشاد ہے کہ مسلمانو! اگر تم میں سے کسی کا خادم کھانا لائے اور اس نے کھانا تیار کرنے میں دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو تم کو چاہیے کہ اس خادم کو اپنے ساتھ کھانے پر نہ بٹھائو تو ایک دو لقمے اس کو ضرور دے دو۔۔۔۔ (بخاری و مسلم۔۔۔۔ ابن ماجہ)
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M