حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا غایت درجہ ادب
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ حرم مکہ میں سیلاب آیا اور حرم شریف میں پانی بھر گیا تو مقام ابراہیم یعنی وہ پتھر جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کی تھی بیت اللہ کی‘ وہ اب بھی محفوظ ہے اور اس پر ابراہیم علیہ السلام کے قدم مبارک کا نشان بھی ہے۔۔۔۔ اس کیلئے ایک چھوٹی سی عمارت بنی ہے۔۔۔۔ اس کے اندر وہ نشان محفوظ ہے۔۔۔۔ (اب نقشہ بدل چکا ہے) حق تعالیٰ کا ارشاد ہے واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی جب طواف کرکے دوگانہ ادا کرتے ہیں تو مقام ابراہیم کو بیچ میں لینا مسنون ہے۔۔۔۔
الغرض سیلاب جو آیا تو مقام ابراہیم پر بنی ہوئی عمارت کا برج گر پڑا اور وہ مقام ابراہیم کے اوپر آگیا تو اس کا ایک کنارہ ٹوٹ گیا اور وہ کنارہ اسی وقت شریف مکہ کے خزانے میں پہنچا دیا گیا۔۔۔۔ وہ چیز مقدس تھی۔۔۔۔ شریف مکہ‘ علماء و مشائخ کو وقتاً فوقتاً اس پتھر کی زیارت کراتے تھے۔۔۔۔ خدا جانے کیا صورت پیش آئی کہ اس کے دو تین ٹکڑے ہوگئے۔۔۔۔ اس میں سے ایک چھوٹا ٹکڑا شریف مکہ نے ہدیہ کے طور پر بعض مشائخ کو دیا اور وہ کسی نہ کسی طرح منتقل ہوکر حضرت مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گیا۔۔۔۔
مولانا کی عادت یہ تھی کہ اس مقام ابراہیم کے ٹکڑے کو نکال کر پانی میں ڈالتے اور وہ پانی اہل مجلس میں تقسیم کیا جاتا۔۔۔۔ اس ٹکڑے میں سے کچھ ریزے گر گئے۔۔۔۔ حضرت نے فوراً ریزوں کو جمع کرکے آنکھوں کے سرمہ میں شامل کرلیا۔۔۔۔ جب آنکھوں میں سرمہ لگاتے تو وہ حل کیا ہوا پتھر بھی آنکھوں میں جاتا تو یہ ادب کی بات تھی طبی اصول پر دیکھا جائے تو آنکھوں کے اندر مٹی یا پتھر کا ریزہ ڈالنا بینائی کیلئے نقصان دہ ہے مگر اس چیز کی پرواہ نہ تھی۔۔۔۔
بینائی کیا چیز ہے؟ اس شرف کے مقابلہ میں جو مقام ابراہیم کی مجاورت اور قرب سے نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔ بہر حال دین کی بنیاد ادب و توقیر اور تعظیم کے اوپر ہے۔۔۔۔ اللہ اور شعائر اللہ کی تعظیم‘ بیت اللہ‘ کتاب اللہ‘ اہل اللہ کی تعظیم‘ غرض جو بھی اللہ کی طرف منسوب ہوجائے۔۔۔۔ اس کی عظمت وتوقیر کرنا یہ دین کی بنیاد ہے۔۔۔۔
