حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا سبق آموز واقعہ

حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا سبق آموز واقعہ

ایک دفعہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ مراد آباد تشریف لے گئے اور جانا آگے تھا۔۔۔۔ مراد آباد بھی ٹھہرے۔۔۔۔ پروگرام میں حضرت نے صرف ایک دن رکھا تھا۔۔۔۔ لوگوں نے اصرار کیا مگر آپ نے انکار فرما دیا تو علماء کا طبقہ جمع ہوکر آگیا کہ ٹھہر جائیں انکار کردیا کہ نہیں ٹھہروں گا۔۔۔۔ پھر بعض امرا جمع ہوکر آگئے۔۔۔۔ امرا سے کہا کہ جب علماء کی نہ سنی تو آپ کی کیسے مانوں؟ مراد آباد کے لوگوں کے دل میں ٹھن گئی کہ کسی نہ کسی طرح ٹھہرائو تو ایک نے مشورہ دیا کہ ان کو ٹھہرانے کی ایک ہی صورت ہے۔۔۔۔
فلاں دفتر میں ایک کلرک لڑکا چودہ پندرہ سال کا ہے‘ اسے بلا لائو وہ ٹھہرا سکے گا جب وہ آیا حضرت رحمۃ اللہ علیہ ادب سے اپنی مسند چھوڑ کر کھڑے ہوگئے جھک کر مصافحہ کیا اور اپنی جگہ پر اس کو بٹھا دیا۔۔۔۔ خود مؤدب ہوکر سامنے بیٹھ گئے۔۔۔۔ اس نے کہا کہ حضرت جی چاہتا ہے کہ کچھ ٹھہر جائیں فرمایا بہت اچھا ٹھہر گئے اور اتنے ٹھہرے کہ ایک ہفتہ تک ٹھہر گئے۔۔۔۔ لوگوں نے سوچا کہ حضرت اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک وہ لڑکا نہیں کہے گا۔۔۔۔ تب آکر اس نے اجازت دی۔۔۔۔
وہ بات کیا تھی؟ بات یہ تھی کہ حضرت کے شیخ حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ تھے اور حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ کے شیخ میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمہ اللہ تھے اور یہ لڑکا میاں جی مرحوم کا نواسہ لگتا تھا تو شیخ کی نسبت کا اتنا ادب تھا کہ ان کے حکم کی وجہ سے وہیں رک گئے۔۔۔۔ کسی کا حکم نہ مانا۔۔۔۔ یہ نسبت کا اتنا ادب تھا شیخ کے بھی نہیں شیخ الشیخ کے نواسے تھے اور یہ ادب تب ہوتا ہے جب اصل شیخ کا ادب دل میں ہو۔۔۔۔ حتی کہ وطن کی نسبت کی وجہ سے شیخ کے وطن کے ساتھ شریف لگاتے ہیں۔۔۔۔ دیوبند شریف‘ نانوتہ شریف‘ مکہ شریف تو وہ شریف کا لفظ تعظیم کی وجہ سے لگاتے تھے نسبت کا ادب اور عظمت یہ کوئی غیر شرعی چیز نہیں۔۔۔۔
اہل اللہ نے نسبتوں کا اس درجہ ادب کیا ہے کہ شیخ کی اولاد اگر جاہل اور کندنا تراش بھی ہوتی پھر بھی حد درجہ ادب کیا۔۔۔۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس اللہ سرہ جو مشائخ چشتیہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔۔۔۔ ان کے پوتے ہیں شاہ ابو سعید صاحب‘ جو سلسلہ چشتیہ کے مشائخ میں سے ہیں۔۔۔۔ شاہ ابو سعید رحمہ اللہ کا ابتدائی زمانہ بہت آزادی کا تھا۔۔۔۔ نہ نماز‘ نہ روزہ‘ نہ پابندی‘ لباس کے شوقین‘ ہر وقت مکلف کپڑے‘ بس اسی میں لگے رہتے‘ نہ علم سیکھنے کی طرف توجہ‘ نہ اعمال کی اصلاح کی طرف جوانی کا زمانہ تھا۔۔۔۔ رنگ رلیوں میں پڑے رہتے۔۔۔۔ وہ ایک دن گنگوہ میں کسی گلی میں جارہے تھے بھنگن نے ٹوکرہ کباڑ کا کہیں پھینکا اور سارا گردہ ان کے کپڑوں کو لگ گیا تو غضبناک ہوگئے اور کہا حرام زادی‘ بے حیا‘ تجھے شرم نہیں آتی۔۔۔۔ یہ بھنگن تھی بوڑھی اور اس نے حضرت شیخ عبدالقدوس کا زمانہ پایا تھا تو اس نے تان کر کہا کہ کس برتے پر اکڑتا ہے؟ دادا کی میراث کمائی تھی جو آج اتنے فخر سے بولتا ہے؟ بس وہ دن تھا۔۔۔۔ اسی وقت واپس ہوئے اور گھر میں آکر والدہ سے کہا کہ اب میں گنگوہ اس وقت تک نہیں آئوں گا جب تک کہ دادا کی میراث نہ سنبھال لوں اور پوچھا کہ اس وقت حضرت شیخ کے خلفاء میں سے کون کون سے لوگ ہیں؟
معلوم ہوا کہ اجلہ خلفاء میں سے شیخ نظام الدین بلخی رحمہ اللہ ہیں۔۔۔۔ انہوں نے خلافت لے کر بلخ کا سفر کیا تو بتلایا گیا کہ بلخ میں بڑی خانقاہ ہے۔۔۔۔ لاکھوں کی اصلاح اور افادہ ہورہا ہے۔۔۔۔ تو شیخ نظام الدین کو اطلاع دی کہ میں آرہا ہوں۔۔۔۔ شیخ کو صاحبزادے کے پہنچنے کی اطلاع ہوئی تو جو پہنچنے کا دن تھا۔۔۔۔ اس زمانے میں موٹر کاریں تو نہ تھیں۔۔۔۔ مہینہ دو مہینہ قطع مسافت کے بعد کہیں جاکر پہنچے۔۔۔۔ اگرچہ صاحبزادہ جاہل ہیں۔۔۔۔ نہ علم‘ نہ ہنر اور شیخ وقت کے ہزاروں متوسل ہزاروں مرید اور ہزاروں کو علم اور دین کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔۔۔۔ مگر اسی نسبت کے ادب کی وجہ سے کئی میل آگے جاکر استقبال کیا اور جب شیخ نکلے تو تمام بلخ‘ امراء بلخ‘ حتی کہ شاہ بلخ بھی ساتھ نکلے ۔۔۔۔ دور سے دیکھا کہ صاحبزادے گھوڑے پر آرہے ہیں تو حضرت نظام الدین رحمہ اللہ آگے بڑھے اور قدموں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
صاحبزادے گھوڑے سے اترنے لگے فرمایا نہیں آپ نہ اتریں اوپر رہیں اب اس شان سے صاحبزادے چلے آرہے ہیں کہ گھوڑے پر سوار ہیں اور قدموں پر شیخ نے ہاتھ رکھا ہے اور جب شیخ نے ہاتھ رکھا تو دوسری رکاب پر خود شاہ بلخ نے ہاتھ رکھا۔۔۔۔ اس شان سے بلخ آئے مہمانداری بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تمام علماء و مشائخ اور امراء کو صاحبزادے کے احترام میں دعوتیں دیں۔۔۔۔ جب تین دن گزر گئے اور شیخ کا یہ عالم کہ دوزانو بیٹھے ہیں۔۔۔۔ صاحبزادہ کو مسند پر بٹھا رکھا ہے پھر پوچھا صاحبزادے اتنا لمبا چوڑا سفر کیسے کیا؟ کہاں ہندوستان اور کہاں بلخ کیا ضرورت پیش آئی؟ صاحبزادے نے کہا کہ دادا کی میراث لینے آیا ہوں جو آپ لے کر آئے ہیں اور یہ وہ نسبت اور تعلق مع اللہ کی میراث ہے۔۔۔۔ فرمایا اچھا یہ غرض ہے کہا جی ہاں فرمایا کہ وہاں جوتیوں میں جاکر بیٹھ جائو اور خود جاکر مسند پر بیٹھ گئے اب نہ وہ ادب ہے نہ وہ تعظیم اور بیعت کرکے تزکیہ نفس کیلئے کچھ اعمال بتلائے۔۔۔۔ خدمت یہ سپرد کی کہ مسجد میں بیٹھ کر استنجا کیلئے ڈھیلے توڑیں تاکہ نمازی آئیں تو تکلیف نہ ہو۔۔۔۔ سال بھر اسی حالت میں گزر گیا کہ کوئی پرسان حال نہیں یا تو شاہ بلخ رکاب تھامے آئے تھے یا آج صاحبزادے کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔۔ جب ایک برس گزر گیا تو شیخ نے امتحان لینا چاہا کہ کس حد تک نفس کی اصلاح ہوئی۔۔۔۔ کبر‘ غرور رفع ہوا یا نہیں۔۔۔۔ تواضع‘ للہیت پیدا ہوئی یا نہیں‘ نفسانیت ختم ہوگئی یا نہیں تو بھنگن کو حکم دیا کہ کوڑا کباڑ کا ٹوکرہ لاکر صاحبزادے کے قریب ڈال دے تاکہ تھوڑا ساگردہ صاحبزادے کے اوپر پڑ جائے اور جو کچھ کہے وہ ہم سے آکر کہہ دے۔۔۔۔ بھنگن نے جاکر ٹوکرا زور سے ڈال دیا تو سارا گردہ صاحبزادے پر پڑا تو اس نے آنکھیں لال پیلی کرکے کہا کہ بے حیا نہ ہوا گنگوہ کہ تجھے بتلاتا اس نے آکر شیخ سے عرض کیا کہ وراثت نہیں ملی۔۔۔۔ ابھی نفسانیت کافی موجود ہے۔۔۔۔
اگلے دن پھر حکم ہوا‘ استنجے کے ڈھیلے توڑنا تو خیر ہے ہی مگر نمازی نماز پڑھ کر نکلیں تو جوتے سامنے رکھو۔۔۔۔ ان کی حفاظت بھی کرتے رہو۔۔۔۔ اب اس خدمت پر لگ گئے جب ایک برس گزر گیا تو بھنگن کو پھر حکم دیا کہ قریب ہی نہیں بلکہ جاکر صاحبزادے کے اوپر سارا کوڑا کرکٹ ڈال دو۔۔۔۔ اس نے سارا ٹوکرہ جاکر ڈال دیا تو صاحبزادے نے کہا ارے بی! کیوں اس کباڑ کو تونے مجھ پر ڈال دیا۔۔۔۔ یہ مجھ سے زیادہ افضل ہے تونے اس کباڑ کو بھی عیب لگایا میں ایسی ناپاک ہستی ہوں کہ یہ کباڑ بھی میرے اوپر گرنے سے ناپاک ہوگیا۔۔۔۔ میرے اندر تو کوئی خوبی نہیں۔۔۔۔
بھنگن نے جاکر شیخ سے یہ سب کچھ عرض کیا فرمایا اب دادا کی وراثت مل چکی ہے۔۔۔۔ اس کے بعد اگلے دن شیخ نے حکم دیا کہ ہم شکار کیلئے جائیں گے۔۔۔۔ صاحبزادہ سے فرمایا تم ہمارے ساتھ چلو شیخ گھوڑے پر سوار ہوگئے اور حکم دیا کہ تم رکاب تھام کے چلو جب وہ آئے تھے تو شیخ نے رکاب تھامی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ گرتے پڑتے شیخ کے ساتھ دوڑتے جارہے ہیں لہو لہان ہوگئے پیروں میں زخم آئے خون نکل آیا مگر کیا مجال کہ یہ رکاب سے الگ ہوجائیں۔۔۔۔ یہ ہوسکتا ہے کہ شیخ حکم دیں اور اطاعت نہ کی جائے؟ اسی شان سے سارا دن بسر ہوا شام کو واپس پہنچے تو صاحبزادے کو حکم دیا کہ غسل کرو‘ صاحبزادے نے غسل کیا کپڑے وغیرہ بدلوائے۔۔۔۔ اسکے بعد مجمع کیا اور بھرے مجمع میں صاحبزادے کو کھڑا کرکے جوتا ہاتھ میں دیا اور فرمایا یہ غلام حاضر ہے‘ سر حاضر ہے‘ یہ جوتا ہے۔۔۔۔ میں اسی طرح خانہ زاد غلام ہوں۔۔۔۔ دادا کی میراث مل نہیں سکتی تھی اگر یہ محنت اور ریاضت نہ ہوتی۔۔۔۔ نفس کا کبر رفع نہ ہوتا۔۔۔۔ اب تمہیں دادا کی میراث مبارک ہو۔۔۔۔ خلافت دی اور پگڑی سر کے اوپر باندھی۔۔۔۔ وہ گویا بے ادبی نہیں تھی بلکہ مجاہدہ تھا کہ اس کے بغیر نفس کی اصلاح نہیں ہوسکتی تھی تو ریاضات اور مجاہدے اس لئے ہوتے ہیں کہ ادب کا مضمون قلب میں پیدا ہوجائے تو اللہ اور اسکے نیک بندوں کا بھی ادب کرو۔۔۔۔ ہر بڑی چیز کا ادب کرو جس میں کوئی بڑائی اور خوبی ہو۔۔۔۔
من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا فلیس منا
جو ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے۔۔۔۔ اس کا ہمارے سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔

Most Viewed Posts

Latest Posts

اختلاف کی دو قسمیں

اختلاف کی دو قسمیں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔علماء کرام میں اگر اختلاف ہو جائے تو اختلاف کی حد تک وہ مضر نہیں جب کہ اختلاف حجت پر مبنی ہو ظاہر ہے کہ ایسی حجتی اختلافات میں جو فرو عیاتی ہوں ایک قدرمشترک ضرور ہوتا ہے جس پر فریقین...

read more

اختلاف کا اُصولی حل

اختلاف کا اُصولی حل محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالرئوف صاحب اپنے رسالہ ’’اِسلامی بینکاری‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:مخلص و محقق اور معتبر اکابر علمائے کرام کے درمیان کسی مسئلہ کی تحقیق کے سلسلے میں جب اختلاف ہوجائے تو بزرگ اکابر حضرات رحمہم اﷲ تعالیٰ کے ارشادات میں مکمل...

read more

ایک ڈاکو پیر بن گیا

ایک ڈاکو پیر بن گیا قطب الارشادحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ اپنے مریدین سے فرمانے لگے تم کہاں میرے پیچھے لگ گئے۔۔۔۔ میرا حال تو اس پیر جیسا ہے جو حقیقت میں ایک ڈاکو تھا۔۔۔۔ اس ڈاکو نے جب یہ دیکھا کہ لوگ بڑی عقیدت اور محبت کے ساتھ پیروں کے پاس...

read more