حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کی تالیفات سے استفادہ
اور آخر میں ایک گزارش ہے جو میں ہر سال اپنے ساتھیوں سے کرتا ہوں‘ چاہے ان کی سمجھ میں آئے یا نہیں‘ محض اس بات کی وجہ سے مان لیں کہ ان کے ایک ساتھی نے چلتے چلتے رخصت ہوتے وقت ایک درخواست کی تھی‘ چلو اس کی لاج رکھتے ہوئے اس کو مان لیتے ہیں کہ جو میں نے ابھی ’’اصلاح نفس‘‘کی بات کی تھی تو میرے نزدیک اس دور میں دین کی صحیح سمجھ پیدا کرنے کے لیے ‘ دین کا صحیح طریقہ سیکھنے کے لیے‘ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس اللہ سرہ کی تالیفات ان کے مواعظ و ملفوظات سے بڑھ کر کوئی شے مؤثر نہیں۔۔ کوئی مجھے شخصیت پرستی کا طعنہ دے تو دیا کرے‘ کوئی مجھے یہ کہے کہ یہ جانب داری سے کام لے رہا ہے تو کہا کرے‘ لیکن پہلے یہ بات تقلیدًا مان لی تھی‘ اب تحقیقاً کہہ رہا ہوں کہ اس دور میں دین کی سمجھ اور اس پر عمل کا مزاج و مذاق جو حضرت حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی قدس اللہ سرہ کی تصانیف اور مواعظ و ملفوظات میں ملے گا‘ اس دور میں کہیں اور نہیں ملے گا۔۔
