حضرت ائمہ فقہاء رحمہم اللہ کا ادب احترام
از خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم گشت از فضل رب
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم و اکابر تابعینؒ کے بعد حضرات ائمہ مجتہدین۔ امام اعظم ابو حنیفہ امام دار الہجرت مالک بن انس امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے فضائل و مناقب اور امت پر ان کے احسانات سب سے بڑھ کر ہیں۔ عنایت ازلی نے ان کو دین قیم کی تبویب و تدوین کے لئے منتخب فرمایا۔ اور انہیں بعد کے تمام اولیائے امت کا سرخیل و سرگروہ بنا دیا۔
حق تعالیٰ شانہ کے کسی مقبول بندے سے عداوت و دشمنی اور اس کی شان میں گستاخی و بے ادبی بہت ہی سنگین جرم ہے حدیث صحیح کے مطابق ایسے شخص کے خلاف حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اعلان جنگ ہے جو کسی مقبول بارگاہ الٰہی کی بے ادبی کا مرتکب ہو۔ حق تعالیٰ شانہ بہت ہی غیور ہیں اور جو شخص ان مقبولان الٰہی کی پوستین دری کرے غیرت الٰہی اسے ہلاک کر دیتی ہے۔
حق تعالیٰ شانہ اپنے بعض مقبول بندوں کی محبت و عداوت کو سنت و بدعت اور ہدایت و ضلالت کی علامت بنا دیتے ہیں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد نوع انسانی میں کامل ترین فرد علی الترتیب حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں لیکن حق تعالیٰ شانہ کی حکمت ہے کہ ایک گروہ ان کے اور ان کے رفقاء کی عداوت اور توہین و تنقیص کو اپنا دین و ایمان سمجھتا ہے اور ائمہ میں سب سے اقدم و اکمل امام اعظمؒ ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ جنہیں اکابر امت نے ’’امام الائمہ‘‘ اور ’’امام اعظم‘‘ کا لقب دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ محرومان توفیق کا ایک طبقہ ان کی تخفیف ِ شان اور اہانت و گستاخی کو سرمایہ سعادت سمجھتا ہے نہ پہلے گروہ کی عداوت شیخینؒ سے ان دونوں بزرگوں کا کچھ بگڑا اور نہ اس دوسرے گروہ کی عداوت و گستاخیوں سے امام ابو حنیفہؒ کے فضل و کمال ہی میں کوئی کمی آئی۔ بلکہ یقین ہے کہ ان اکابر کے درجات اس سے بلند ہوئے ہوں گے البتہ اس کا صدمہ ہے کہ ان اکابر کی عداوت کتنے ہی لوگوں کو کھا گئی۔
حضرت امام اعظمؒ کی جلالت قدر کا اندازہ ان امتیازی خصوصیات سے ہوتا ہے جو ائمہ اربعہ میں ان کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوئیں۔ مثلاً
۔1۔۔ وہ باتفاق اہل نقل تابعی ہیں اور انہو ںنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کی زیارت سے مشرف ہو کر انوار صحابیت کو اپنی آنکھوں میں جذب کیا ہے اور یہ سعادت ان کے سوا دیگر ائمہ کو نصیب نہیں ہوئی جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
طُوْبٰی لِمَنْ رَاٰنِیْ وَلِمَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰنِیْ ‘‘ (فیض القدیر )
۔2۔۔حضرت امام رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے شریعت کو کتب و ابواب کی شکل میں مدون فرمایا ہے اور ان کی اقتداء میں امام مالکؒ نے موطا لکھی۔
۔3۔۔۔ ان کے فیضان صحبت سے ایسے ائمہ کبار تیار ہوئے جن کی نظیر دوسرے اکابر کے تلامذہ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ آپ کے سیرت نگاروں نے آپ کے تلامذہ کی ایک طویل فہرست نقل کی ہے جن میں اکثر ائمہ کبار ہیں۔ مثلاً مغیرہؒ بن مقسم الضبی اور امام مالکؒ ایسے اکابر بھی آپ سے روایت کرتے ہیں اور زکریا بن ابی زائدہ۔ مسعر بن کدام‘ سفیان ثوری‘ مالک بن مغول ‘یونس ابن ابی اسحاق‘ حفص بن غیاث‘ جریر بن عبدالحمید‘ عبداللہ بن المبارک‘ وکیع بن الجراح‘ یزید بن ہارون‘ مکی بن ابراہیم‘ ابو عاصم النبیل‘ عبدالرزاق بن ہمام‘ ابو یوسف القاضی‘ داوٗد بن نصیر الطائی اور فضیل بن عیاض رحمہم اللہ ایسے اکابر کو حضرت امامؒ سے تلمذ کا شرف حاصل ہے غور فرمایا جائے کہ بعد کی امت کا کون شخص ہے جو حضرت امامؒ کے ان فیض یافتوں کا خوشہ چین نہیں۔
۔4۔۔۔ اور حضرت امامؒ کا ایک اہم ترین امتیاز یہ ہے کہ ان کے فقہی مسائل محض ان کی ذاتی و انفرادی رائے نہیں بلکہ فقہاء و محدثین اور عباداللہ الصالحین کی ایک بڑی جماعت نے غور و فکر اور بحث و تمحیص کے بعد ان کی منظوری دی ہے۔
شیخ ابن حجرالمکی رحمہ اللہ ’’الخیرات الحسان‘‘ فصل دوم میں لکھتے ہیں:۔
۔’’ایک شخص نے امام وکیع بن جراح کی موجودگی میں یہ کہہ دیا کہ ابو حنیفہ نے غلطی کی ہے امام وکیعؒ نے اسے ڈانٹ پلائی اور فرمایا جو شخص ایسی بات کہے وہ چوپائوں کی مانند ہے بلکہ ان سے بڑھ کر گم کردہ راہ۔ وہ کیسے غلطی کر سکتے تھے حالانکہ ان کے پاس امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ ایسے ائمہؒ فقہ موجود تھے فلاں فلاں ائمہ حدیث موجود تھے۔ فلاں فلاں ائمہ لغت و عربیتؒ موجود تھے۔ اور فضیل بن عیاضؒ اور دائود الطائی ایسے ائمہ زہد و ورع موجود تھے۔ اور جس کے رفقاء یہ لوگ ہوں وہ غلطی نہیں کر سکتا کیونکہ اگر وہ غلطی کرتا تو یہ حضرات اسے ضرور حق کی طرف لوٹا دیتے۔
حضرت امام رحمہ اللہ کے علوم کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جس کی واضح دلیل ہے کہ جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن سعید القطانؒ ان کے شاگرد یحییٰ بن معین رحمہ اللہ الامام الثقتہ الثیت لیث بن سعد امام شافعی رحمہ اللہ کے استاذ امام وکیع بن جراحؒ اور امام بخاریؒ کے استاذ کبیر امام مکی بن ابراہیم (رحمہم اللہ) ایسے جہابدہ محدثین حضرت امامؒ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے اور امام عبداللہ بن المبارکؒ کو جنہیں دربار علم سے امیر المومنین فی الحدیث کا خطاب ملا ہے حضرت امامؒ سے تلمذ پر فخر تھا۔
مناسب ہے کہ حضرت امام رحمہ اللہ کے معاصرین اور بعد کے چند اکابر کے کچھ جملے حضرت امامؒ کے حق میں نقل کر دئے جائیں۔
۔1۔۔۔ امام محمد بن سیرینؒ (م ۱۱۰) حضرت امامؒ کے اس خواب کا ذکر قریباً سبھی نے کیا ہے کہ گویا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھول رہے ہیں امام محمد بن سیرینؒ سے اس کا ذکر کیا گیا تو فرمایا ’’یہ شحض علوم نبوت کو پھیلائے گا‘‘۔ (مناقب ذہبی ص ۲۲)
۔2۔۔۔ امام مغیرہ بن مقسم الضبیؒ (م ۱۳۶ھ) جریر بن عبدالحمیدؒ کہتے ہیں کہ موصوف نے مجھے تاکید فرمائی ’’امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں حاضری دیا کرو فقیہ بن جائو گے اور اگر ابراہیم نخعی ؒ حیات ہوتے تو وہ بھی ان کی ہم نشینی اختیار کرتے‘‘۔ (مناقب ذہبی ص ۱۸)
۔3۔۔ امام اعمش (سلیمان بن مہران م ۱۴۷ ھ) حضرت امام رحمہ اللہ سے مسائل دریافت فرماتے تھے اور آپ کی تحسین فرماتے تھے ایک بار ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا گیا تو فرمایا ’’اس کا صحیح جواب ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی دے سکتے ہیں میرا خیال ہے کہ ان کے علم میں برکت دی گئی ہے‘‘۔
جریر کہتے ہیں کہ امام اعمش رحمہ اللہ سے دقیق مسائل پوچھے جاتے تو حضرت امامؒ کے پاس بھیج دیتے۔ (مناقب ذہبی )
۔4۔۔۔ امام ابن جریج (عبدالملک بن عبدالعزیزؒ م ۱۵۰ھ) حضرت امام رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سن کر فرمایا ’’آہ! کیسا علم جاتا رہا‘‘ (تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۱۳۸)
اور ایک روایت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے ان کے ساتھ بہت سا علم جاتا رہا‘‘۔ (مناقب ذہبی )
۔5۔۔۔ امام علی بن صالح (م ۱۵۱ ھ) نے حضرت امامؒ کی وفات پر فرمایا: ’’عراق کا مفتی اور فقیہ چل بسا‘‘۔ (مناقب ذہبی )
۔6۔۔۔ امام مسعر بن کدام رحمہ اللہ(م۱۵۳ھ) ’’مجھے کوفہ کے دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں آتا ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ان کی فقہ میں اور حسن بن صالح رحمہ اللہ پر ان کے زہد میں‘‘۔(تاریخ بغداد )
نیز فرماتے تھے ’’اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ پر رحمت فرمائے وہ بڑے فقیہ عالم تھے‘‘۔(مناقب ذہبی )
نیز فرماتے تھے ’’ہم نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ علم حدیث حاصل کرنا شروع کیا تو وہ ہم پر غالب آ گئے ہم زہد میں مشغول ہوئے تو ہم سے آگے نکل گئے۔ ہم نے ان کے ساتھ علم فقہ حاصل کرنا شروع کیا تو اس میں انہوں نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ تم دیکھ ہی رہے ہو‘‘۔ (مناقب ذہبی )
۔7۔۔۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ (عبدالرحمن بن عمروم ۱۵۷ ھ) ’’جو شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے محبت رکھے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھے وہ بدعتی ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے ’’ہمارے پاس لوگوں کے جانچنے کے لئے ابو حنیفہؒ معیار ہیں۔ جو ان سے محبت اور دوستی رکھے وہ اہل سنت میں سے ہے اور جو ان سے بغض رکھے ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بدعتی ہے۔‘‘(الخیرات الحسان )
۔8 ۔۔۔ امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ (م ۱۶۰ ھ) ’’اللہ کی قسم ! امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بہت عمدہ فہم اور جید حافظہ کے مالک تھے لوگوں نے آپ پر ایسی باتوں میں طعن و تشنیع کی جن کو وہ ان لوگوں سے زیادہ جانتے تھے۔ اللہ کی قسم ! یہ لوگ اپنی اس بدگوئی کی سزا خدا تعالیٰ کے یہاں پ
ائیں گے‘‘ امام شعبہ حضرت امامؒ کے حق میں بکثرت دعائے رحمت کیا کرتے تھے۔ (مناقب ذہبی )
۔9 ۔۔۔۔ امام دائود بن نصیر الطائی (م ۱۶۰ ھ) ’’آپ ایک روشن ستارہ تھے جس سے راہ رو رات کی تاریکیوں میں راستہ پاتا ہے آپ کے پاس وہ علم تھا جس کو اہل ایمان کے قلوب قبول کرتے ہیں‘‘۔(الخیرات )
اس بحث کے آخر میں مناسب ہے کہ حضرت مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی (م ۱۳۷۵ھ) کی کتاب ’’تاریخ اہل حدیث‘‘ سے دو اقتباس نقل کر دئے جائیں۔
ایک زمانے میں موصوف کو حضرت امامؒ کے خلاف لکھنے کا کچھ خیال ہوا۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ نے ان کے دین و تقویٰ اور صفائے باطن کی برکت سے انہیں اس بلا سے محفوظ رکھا۔
مولانا مرحوم خود لکھتے ہیں:’’اس مقام پر اس کی صورت یوں ہے کہ جب میں نے اس مسئلہ کے لئے کتب متعلقہ الماری سے نکالیں اور حضرت امام صاحبؒ کے متعلق تحقیقات شروع کی تو مختلف کتب کی ورق گردانی سے میرے دل پر کچھ غبار آ گیا جس کا اثر بیرونی طورپر یہ ہوا کہ دن دوپہر کے وقت جب سورج پوری طرح روشن تھا۔ یکایک میرے سامنے گھپ اندھیرا چھا گیا۔ گویا ’’۔
کا نظارہ ہو گیا۔
معاً خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ سے بدظنی کا نتیجہ ہے۔ اس سے استغفار کرو میں نے کلمات استغفار دہرانے شروع کئے وہ اندھیرے فوراً کافور ہو گئے اور ان کے بجائے ایسا نور چمکا کہ اس نے دوپہر کی روشنی کو مات کر دیا۔
اس وقت سے میری امام صاحب رحمہ اللہ سے حسن عقیدت اور بڑھ گئی اور میں ان شخصوں سے جن کو حضرت امام صاحب رحمہ اللہ سے حسن عقیدت نہیں ہے کہا کرتا ہوں کہ میری اور تمہاری مثال اس آیت کی مثال ہے کہ حق تعالیٰ شانہ منکرین معارج قدسیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ’   ‘‘ میں نے جو کچھ عالم بیداری و ہوشیاری میں دیکھ لیا اس میں مجھ سے جھگڑا کرنا بے سود ہے‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث )
دوسری جگہ مشہور اہل حدیث عالم حضرت مولانا حافظ محمد عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کے حالات میں لکھتے ہیں:’’آپ ائمہ دین کا بہت ادب کرتے تھے چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابو حنیفہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث)
منقول از ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ از مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ
حق تعالیٰ شانہ اس آفت سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے اور سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے
بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات
بادرد کشاں ہر کہ در افتاد بر افتاد
ترجمہ:۔ بس تجربہ کر لیا ہم نے اس مکافات کی دنیا میں۔ کہ جو (شراب محبت) کی تلچھٹ پینے والوں کے ساتھ الجھا وہ تباہ ہو گیا۔
