حسین کے خیالِ بلا قصد کے دفعیہ کا طریقہ
ملفوظاتِ حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
ار شاد فرمایا کہ اگر کسی حسین کا خیالِ بلاقصد آوے تو علاج یہ ہے کہ یہ خیال خود نہ لاوے، اگر وہ خود آوے تو آنے دیوے۔ ذرہ برابر بھی ضرر نہیں مگر قصد سے اس کا ابقا نہ کرے بلکہ اس کشمکش ہی میں تو اجر بڑھتا ہے۔ اگر دفع ہی کرنا چاہے تو تصور کرے کسی ایسے بنئے کا جو اندھا، چوندھا، بدشکل ہو۔ جس کی ناک پچکی ہوئی ہو۔ ہونٹ بڑے بڑے، توند بڑی سی نکلی ہوئی اور ناک سے رینٹ اور منہ سے رال بہہ رہی ہو۔ ان شاء اللہ اس تصور سے وہ خیال جاتا رہے گا۔ اگر نہ بھی گیا تو کمی تو ضرور ہو جائے گی کیونکہ یہ عقلی مسئلہ ہے کہ *النفس لا تتوجه الى شیئین فی ان واحد* ۔لیجئے ہم نے کافر سے بھی دین کا کام لے لیا اور بالکل اس خیال کا نکل جانا تو مطلوب بھی نہیں (جیسا کہ اوپر آیا کہ اس کشمکش ہی میں تو اجر بڑھتا ہے)۔ خلاصہ یہ کہ اگر آدمی بچنا چاہے اور ہمت اور قوت سے کام لے تو خدا تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے اور یہ خیال رفتہ رفتہ بالکل نکل جاتا ہے۔ لیکن اگر نہ بھی نکلے تو کلفت برداشت کرے۔ اگر خدانخواستہ کوئی مرض عمر بھر کو لگ جاوے تو وہاں کیا کرو گے ۔ عمر بھر تکالیف کو طوعاً و کرہاً برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ یہاں بھی یہی کرو اور اگر اس پر راضی نہیں تو کوئی دوسرا خدا تلاش کرو۔
نوٹ:- یہ ملفوظات ڈاکٹر فیصل صاحب (خلیفہ عبدالمتین شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ) نے انتخاب فرمائے ہیں۔ اور انکو حضرت مولانا محمد زبیر صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم الاسلام لاہور 2023) نے تحریر فرمایا ہے ۔
یہ ملفوظات آپ ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر بالکل مفت میں پڑھ سکتے ہیں ۔
براہ مہربانی یہ پوسٹ اپنے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پر شئیر کریں ۔

