حرم پاک کے حدود مقر رکرنے کی حکمت و مصلحت
ارشاد فرمایا کہ مکہ کے لئے حرم مقرر کرنے میں یہ راز ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک خاص طرز کی تعظیم ہوتی ہے چنانچہ کسی دین کی یہ تعظیم ہے کہ اس میں کسی چیز سے تعرض نہ کیا جائے۔ اور دراصل یہ تعظیم بادشاہوں کی حد اور ان کی شہر پناہوں سے ماخوذ ہے ، جب کوئی قوم ان کی فرمانبردار ہوتی ہے اور ان کی اطاعت و تعظیم کرتی ہے تو ان کے مطیع ہونے میں یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اوپر اس بات کو مقرر کر لیتی ہے کہ ان کے حدود کے اندر درخت و جانور وغیرہ ہیں ان سے ہم کچھ تعرض نہ کریں گے(یعنی ان کو نہیں چھیڑیں گے) ۔ حدیث شریف میں آیا ہے:۔
ان لکل ملک حمی الا ان حمی اللہ فی ارضہ محارمہ (بخاری و مسلم)
یعنی ہر بادشاہ کے لئے باڑ ہوتی ہے ، حق تعالیٰ کی باڑ اس کے محارم ہیں۔
نیز فرمایا کہ حرم کے جانوروں کا نہ کھانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص جو باوجودیکہ گوشت کھایا کرتا ہو اپنے محبوب کے کوچہ کے جانوروں کو کچھ نہ کہے۔ البتہ موذی جانور(سانپ بچھو بھیڑئیے وغیرہ) عاشقانِ الٰہی کو تکلیف پہنچانے والے اور کوچہ محبوب سے مانع ہوتے ہیں لہٰذا گر ان جانوروں کو حرم میں مار ڈالے تو اس پر ان کے بدلہ میں کوئی تاوان دینا لازم نہیں ہوتا۔ (امدادالحجاج ،صفحہ ۲۲۷)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے یہ ملفوظات جو حج سے متعلق ہیں ۔ خود بھی پڑھیں اور دوستوں سے بھی شئیر کریں ۔
مزید ملفوظات پڑھنے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
اپنے پاس محفوظ کرلیں ۔
اس طرح کے ملفوظات روزانہ اس واٹس ایپ چینل پر بھی بھیجے جاتے ہیں
https://whatsapp.com/channel/0029VaJtUph4yltKCrpkkV0r
چینل جوائن کریں

