حدودِ مسجد کا مطلب (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔
بہت سے لوگ حدودِ مسجد کا مطلب نہیں سمجھتے اور اس بناء پر ان کا اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ، اس لئے خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حدودِ مسجد کا کیا مطلب ہے؟ عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطہ کو مسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے یہ پورا احاطہ مسجد ہونا ضروری نہیں بلکہ شرعاََ صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ زمین کہ کسی حصہ کا مسجد ہونا اور چیز ہے اور مسجد کی ضروریات کے لیے وقف ہونا اور چیز۔ شرعاََ مسجد صرف اتنے حصہ کو کہا جائے گا جسے بنانے والے نے مسجد قرار دیا ہو یعنی نماز پڑھنے کے سوا اس سے کچھ اور مقصود نہ ہو لیکن تقریباََ ہر مسجد میں کچھ حصہ ایسا ہوتاہے مثلاََ وضو خانہ، غسل خانہ، استنجا خانہ ، نمازِ جنازہ پڑھنے کی جگہ ، امام کا حجرہ، گودام وغیرہ ۔ اس حصہ پر شرعاََ مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے چنانچہ ان حصوں میں جنابت کی حالت میں جانا بھی جائز ہے جبکہ اصل مسجد میں جنبی کا داخل ہونا جائز نہیں ۔ اس ضروریاتِ مسجد والے حصہ میں معتکف کا جانا بالکل جائز نہیں ہے بلکہ اگر معتکف اس حصہ میں شرعی عذر کے بغیر ایک لمحہ کے لئے بھی چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔
پھر بعض مساجد میں تو ضروریاتِ مسجد والا حصہ اصل مسجد سے بالکل الگ اور ممتاز ہوتا ہے جس کی پہچان مشکل نہیں ہوتی لیکن بعض مساجد میں یہ حصہ اصل مسجد سے اس طرح متصل ہوتا ہے کہ ہر شخص اسے نہیں پہچان سکتا اور جب تک بانی مسجد صراحۃََ نہ بتائے کہ یہ حصہ مسجد نہیں ہے اس وقت تک اس کا پتہ نہیں چلتا۔ لہٰذا جب کسی شخص کا کسی مسجد میں اعتکاف کرنے کا ارادہ ہو تو اسے سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ مسجد کے بانی یا اس کے متولی سے مسجد کی ٹھیک ٹھیک حدود معلوم کرے ۔ مسجد والوں کو چاہئے کہ وہ مسجد میں ایک نقشہ مرتب کرکے لٹکا دیا جائے جس سے مسجد کی حدود واضح کردی گئی ہو ورنہ کم ا زکم بیسویں روزے کو جب معتکفین مسجد میں جمع ہوجائیں تو انہیں زبانی طور پر سمجھا دیا جائے کہ مسجد کی حدود کہاں کہاں تک ہیں؟
یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔

