حج کے متعلق سنتیں
حج کا ثواب اور مغفرت
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کی فضیلت معلوم کرنے والے صحابی سے) فرمایا: جب تم بیت اللہ کی زیارت کی نیت سے اپنے گھر سے چلو تو راستہ میں تمہاری اونٹنی کے ہر قدم پر تمہارے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک گناہ مٹایا جائے گا اور (طواف کے بعد مقام ابراہیم پر) تمہارا دو رکعتیں ادا کرنا (ثواب میں) بنی اسماعیل میں سے ایک غلام آزاد کرنے کی طرح ہے اور صفا و مروہ (کے درمیان) سعی کرنے کا (ثواب) ستر غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔
اور عرفہ کے دن شام کو تمہارا میدانِ عرفات میں وقوف کرنا (ایسا مبارک ہے کہ) اللہ تعالیٰ (اپنی شان کے مطابق) آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ملائکہ کے سامنے تم پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں اے میرے بندو! تم غبار آلود، پراگندہ بال، ہر گہری اور کشادہ وادی سے (نکل کر) میرے پاس آئے ہو اور میری جنت (ملنے کی) آرزو رکھتے ہو (لو سنو!) ۔۔۔۔۔ اگر تمہارے گناہ ریت کے ذرّات کی طرح ہوں یا بارش کے قطروں یا سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں تو بھی میں نے بخش دیئے، اب تم! بخشے ہوئے لوٹ جاؤ اور جن کی تم سفارش کرو (ان کو بھی بخش دیا)۔
جمرات کی رمی میں ہر اس کنکری کے بدلہ جس سے تم رمی کرو گے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ایک گناہ کبیرہ معاف ہوگا اور تمہاری (حج کی) قربانی تمہارے رب کے پاس ذخیرہ ہے (جس کا ثواب آخرت میں ملے گا) اور سر مُنڈانے میں تمہارے ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی عطا ہوگی اور ایک گناہ مٹایا جائے گا۔ (اس کے بعد آخر میں) تمہارا بیت اللہ کا طواف کرنا ایسی حالت میں ہوگا کہ تمہارا کوئی گناہ باقی نہ بچے گا اور ایک فرشتہ آئے گا اور تمہارے دونوں کاندھوں کے درمیان ہاتھ رکھے گا اور کہے گا کہ آئندہ (نئے سرے سے) عمل کرو تمہارے پچھلے گناہ (سب) معاف کردیئے گئے۔ (رواہ البزار باسناد لابأس بہ)
حج کا پہلا دن، ۸ ذی الحج، حج کا اِحرام
۔۸ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ تک کے ایام حج کے دن کہلاتے ہیں یہی دن اس سارے سفر کا حاصل ہیں اور انہی دنوں میں اسلام کا اہم رُکن ’’حج‘‘ ادا ہوتا ہے۔ ۷ ذی الحجہ کو مغرب کے بعد ۸ ذی الحجہ کی رات شروع ہو جائے گی۔ رات ہی کو منٰی جانے کی مکمل تیاری کریں اور یہ کام انجام دیں۔
٭ اگر آپ کا احرام پہلے سے بندھا ہوا ہے۔ مثلاً حج قران یا حج افراد کا احرام بندھا ہوا ہے تو وہی کافی ہے اور اگر حج تمتع کررہے ہیں جس میں آپ نے عمرہ کرکے احرام کھول دیا تھا یا آپ مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہیں تو آپ صرف حج کا احرام باندھیں گے جس کا طریقہ یہ ہے کہ: ٭ جب احرام کا ارادہ ہو تو پہلے وہ آداب اور سنتیں بجا لائیں جو عمرہ کے احرام میں ہم لکھ آئے ہیں وہاں ان کی تفصیل دیکھیں۔ مثلاً سر کے بال سنواریں، مونچھیں کتریں، بغل اور زیر ناف کے بال صاف کریں اور احرام کی نیت سے غسل کریں۔ (غنیۃ) ٭ سلے ہوئے کپڑے اُتار کر احرام کی چادریں باندھیں، ہوائی چپل یا ایسی جوتی یا چپل پہنیں جس میں پیروں کی پشت کی اُبھری ہوئی ہڈی بالکل کھلی رہے، البتہ خواتین سلے ہوئے کپڑے پہنے رہیں اور جوتے وغیرہ بھی پہنے رہیں۔ (غنیۃ)
٭ اب مرد حضرات حرم شریف میں آئیں اور مستحب یہ ہے کہ طواف کریں اور طواف کی دو رکعات ادا کرنے کے بعد احرام کے لیے دو رکعت نفل پڑھیں اور اگر طواف کرنے کی ہمت نہ ہو تو صرف احرام کی نیت سے سر ڈھک کر دو رکعت نفل ادا کریں۔ اگر پہلی رکعت میں ’’الحمد شریف‘‘ کے بعد ’’سورۂ کافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھیں تو بہتر ہے اور اگر مکروہ وقت ہو تو بغیر دو رکعت پڑھے حج کی نیت کریں۔ (حیات)
حج کی نیت اور تلبیہ
اگر حج فرض ہے تو احرام باندھنے کے وقت حج فرض کی نیت کریں، نفل ہے تو حج نفل کی نیت کریں اور اگر کسی دوسرے کی طرف سے حج کرنا ہے تو اس کا نام لیں کہ میں فلاں بن فلاں کی طرف سے یا اپنے والد یا والدہ کی طرف سے حج کا احرام باندھتا ہوں، نیت کے الفاظ یہ ہیں: ’’اے اللہ! میں آپ کی رضا کے لیے حج کی نیت کرتا ہوں۔ آپ اس کو قبول کرلیجئے اور میرے لیے آسان کردیجئے۔‘‘ (آمین) … پھر فوراً ہی حج کے احرام کی نیت سے تین مرتبہ درمیانی آواز کے ساتھ ’’لَبَّیْکَ‘‘ کہیں پھر ہلکی آواز سے درُود شریف پڑھیں اور یہ دُعا کریں:۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ ط‘‘
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں آپ سے آپ کی رضا اور جنت مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘۔
٭ خواتین گھر ہی میں احرام باندھیں، ان کے احرام کا وہی طریقہ ہے جو شروع میں خواتین کے احرام میں گزرا، وہ اس کے مطابق عمل کریں اور حج کی نیت کرکے لبیک کہیں۔ ٭ اب ایک بار پھر احرام کی پابندیاں لازم ہوگئیں۔ لہٰذا عمرہ کے بیان میں ان کو دوبارہ توجہ سے دیکھ کر تازہ کریں اور ذہن نشین کریں تاکہ حج میں کوئی غلطی نہ ہونے پائے اور حج ناقص نہ ہونے پائے، لیجئے! حج کا احرام بندھ گیا۔
منٰی روانگی
٭ اب آپ حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ مکرمہ سے طلوع آفتاب کے بعد منٰی روانہ ہوں اور راستہ میں اُترتے چڑھتے، صبح اور شام نمازوں کے بعد اور حاجیوں سے ملاقات کے وقت کثرت سے تلبیہ پڑھیں اور جب بھی تلبیہ پڑھیں تین بار پڑھیں، اس کے بعد درُود شریف پڑھیں اور آہستہ سے یہ دُعا مانگیں:
’’اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ ط‘‘
ترجمہ:…’’اے اللہ! میں آپ کی رضا اور جنت مانگتا ہوں اور آپ کی ناراضگی اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘۔
٭ دیگر اذکار ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ استغفار اور درُود شریف پڑھتے چلیں تاہم تلبیہ زیادہ پڑھیں کیونکہ حالت احرام میں یہ سب سے افضل ذکر ہے۔ (حیات) یہ پانچ دن ذکر الٰہی، دُعا اور عبادت کرنے کے لیے ہیں۔ اس لیے ان کے انجام دینے میں بطور خاص مصروف رہیں، گناہوں سے بے حد بچیں، غیبت بالکل نہ کریں، کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے لیے سب کچھ برداشت کر جائیں، فضول باتیں کرنے سے بھی خوب بچیں، بس ہمہ تن اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھیں، توبہ و استغفار کریں تاکہ حج صحیح اور مقبول ہو جائے۔
ضروری مسئلہ
اگر کوئی حاجی ۸ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب سے پہلے (خواہ فجر کے بعد یا فجر سے بھی پہلے) منٰی چلا جائے تو بھی جائز ہے مگر خلاف اولیٰ ہے۔ (ہندیہ) لہٰذا معلم کے انتظام سے مجبور ہوکر طلوع آفتاب سے پہلے منٰی جانے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ منٰی میں پانچ نمازیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور ۹ ذی الحجہ کی فجر کی نماز ادا کرنا مسنون ہے اور رات کو منٰی میں رہنا سنت ہے، اگر رات کو مکہ مکرمہ میں رہیں یا مکہ مکرمہ سے سیدھے عرفات پہنچ گئے تو مکروہ ہے، ایسا کرنے سے بچنا چاہیے۔ (عمدہ بتصرف)
حج کا دوسرا دن، ۹ذی الحجہ، عرفات روانگی
٭ فجر کی نماز منٰی میں پڑھیں، تکبیر تشریق کہیں اور لبیک کہیں اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر عرفات جانے کی تیاری کریں اور پھر سکون و اطمینان سے عرفات کی طرف روانہ ہوں اور راستہ میں یہی اوپر والے اذکار، استغفار، درُود شریف اور دُعا کرتے رہیں مگر تلبیہ زیادہ کہیں۔
ضروری مسئلہ
٭ اگر کوئی حاجی منٰی میں صبح صادق ہونے سے پہلے یا نماز فجر سے پہلے یا سورج نکلنے سے پہلے عرفات جائے تو بھی جائز ہے لیکن ایسا کرنا برا ہے۔ (حیات) تاہم معلم کی سواری کے انتظام سے مجبور ہوکر جلدی جانا پڑے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ (عمدہ بتصرف) ٭میدانِ عرفات میں زوال کے بعد پہنچنا افضل ہے لیکن اگر پہلے پہنچ جائیں تو بھی کوئی گناہ نہیں اور زوال سے پہلے تمام ضروریات، کھانے پینے سے فارغ ہو جائیں اور کچھ دیر آرام کریں، پھر زوال سے کچھ پہلے غسل کریں یا وضو کریں لیکن غسل کرنا افضل ہے۔ (حیات و عمدہ بتصرف)
٭ ’’وقوفِ عرفات‘‘ کا وقت زوال کے بعد سے صبح صادق تک ہے، اس لیے زوال ہوتے ہی وقوف شروع کردیں۔ یاد رکھیں! یہ بہت ہی خاص جگہ اور خاص وقت ہے، اس سے بہتر وقت زندگی میں نہیں ملے گا، اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں، گرمی ہو یا سردی سب برداشت کر جائیں اور شام تک لبیک کہنے، توبہ و استغفار کرنے، چوتھا کلمہ پڑھنے، الحاح و زاری اور گڑگڑا کر دُعا کرنے میں گزاریں اور تلبیہ ہر بار درمیانی آواز سے کہیں اور اذکار دُعائیں بھی ہلکی آواز سے کریں، یہی افضل ہے اور وقوف کھڑے ہوکر کرنا مستحب ہے اور بیٹھ کر بھی جائز ہے۔ (عمدہ و حیات)
٭ ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت ادا کریں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں اذان کے ساتھ باجماعت ادا کریں۔ (معلم و عمدہ)
مسجد نمرہ جانے کا حکم
بعض حنفی حجاج مسجد نمرہ میں حاضری کا بہت اہتمام کرتے ہیں تاکہ مسجد نمرہ کی فضیلت حاصل کریں اور امام کی اقتداء میں ظہر اور عصر کی نماز ملا کر پڑھیں۔ اس کے بارے میں عرض ہے کہ اوّل تو حنفی مذہب میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا واجب نہیں، سنت یا مستحب ہے، دوسرے اس جمع کرنے کی چند شرطیں ہیں جو عموماً نہیں ہوتیں، مثلاً ایک شرط یہ ہے کہ امام المسلمین یا اس کے نائب کی اقتداء میں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر ادا کی جائیں اور یہاں مسجد نمرہ میں امام المسلمین یا اس کا نائب تو ہوتا ہے لیکن عموماً یہ مقیم ہونے کے باوجود ان نمازوں میں قصر کرتا ہے اور مقیم امام کے قصر کرنے سے جمہور کے نزدیک یہ نمازیں صحیح نہیں ہوتیں۔ اس لیے حنفی مقیم یا مسافر حاجی کی نماز اس کے پیچھے صحیح نہیں ہوتی اور اپنے خیموں میں بھی یہ نمازیں ملا کر ادا نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں امام المسلمین یا اس کا نائب میسر نہیں۔ اس لیے اپنے خیموں میں دونوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کریں۔ (احکام حج بتصرف)
نیز اپنے خیمے چھوڑ کر مسجد نمرہ جانے میں راستہ بھولنا، حاجی اور اس کے ساتھیوں کا پریشان ہونا، اس کے علاوہ ہے۔ اس لیے مسجد نمرہ میں نہ جانا چاہیے اور اس قیمتی وقت کو پوری یکسوئی سے حق تعالیٰ کی یاد میں گزارنا چاہیے۔
وقوف عرفات کا طریقہ
جب ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہو جائیں تو جو طبیعت چاہے ذکر و تلاوت اور دُعا کریں یہاں کے لیے کوئی خاص ذکر مقرر نہیں ہے کہ اس کے بغیر حج میں فرق آ جائے۔ تاہم افضل یہ ہے کہ قبلہ رُخ کھڑے ہوں، وقوف کی نیت کریں اور دُعا کے لیے ہاتھ پھیلائیں اور خشوع و خضوع کے ساتھ لبیک کہیں، پھر خوب گڑگڑا کر توبہ و استغفار کریں اور اپنے سارے گناہوں کی دل سے معافی مانگیں اور گیارہ مرتبہ دل سے یہ استغفار کریں:۔
’’اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘
٭ پھر تین مرتبہ لبیک کہیں اور نماز والا درُود شریف سو مرتبہ پڑھیں اور اس کے آخر میں کبھی کبھی ’’وَعَلَیْنَا مَعَھُمْ‘‘ ملایا کریں۔ ٭ پھر سو (۱۰۰) مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ پڑھیں۔ ٭ پھر سو مرتبہ ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ کی سورت پڑھیں اور درمیان میں لبیک اور کچھ کچھ وقفہ سے جو دل میں آئے دُعا کرتے رہیں یا مناجاتِ مقبول کا اُردو ترجمہ سمجھ سمجھ کر مانگتے رہیں اور یہ سارا وقت پوری توجہ اور دھیان سے یادِ الٰہی میں اور اپنے اور متعلقین کے لیے دُعائیں مانگنے میں گزاریں، ناچیز کو بھی یاد فرمالیں تو احسان ہوگا۔
٭ یہ دُعا بھی مانگیں اور آئندہ بھی ہر جگہ مانگ لیا کریں: ’’اے اللہ! یہاں پر آج تک جتنی دُعائیں آپ کے انبیاء کرام علیہم السلام نے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دوسرے مقبول بندوں نے مانگی ہیں یا بتلائی ہیں وہ سب دُعائیں میری طرف سے قبول فرما۔ (آمین) اور اے اللہ! ہمیں اپنی رضا اور جنت عطا فرما اور اپنی ناراضگی اور دوزخ سے پناہ عطا فرما۔ (آمین) اسی طرح غروب آفتاب تک خشوع و خضوع کے ساتھ ذکر و دُعا میں لگے رہیں۔
مزدلفہ روانگی
جب عرفات کے میدان میں آفتاب غروب ہو جائے تو یہاں نہ مغرب کی نماز پڑھیں اور نہ عشاء پڑھیں اور نہ راستہ میں یہ نماز پڑھیں بلکہ مزدلفہ پہنچ کر ان نمازوں کو ادا کریں، راستہ میں ذکر اللہ، درُود شریف اور کثرت سے لبیک پڑھتے رہیں اور مزدلفہ میں پہنچ کر یہ کام کریں۔
مغرب اور عشاء کی نماز ملانا
٭ مغرب اور عشاء دونوں نمازیں ملاکر عشاء کے وقت میں ادا کریں، دونوں نمازوں کے لیے ایک اذان اور ایک اقامت کہیں، جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب عشاء کا وقت ہو جائے تو اذان دیں ، پھر اقامت کہیں پھر ادا کی نیت سے باجماعت مغرب کے تین فرض پڑھیں، سلام پھیر کر تکبیر تشریق اور لبیک کہیں اس کے بعد بغیر اقامت کہے فوراً عشاء کے فرض باجماعت پڑھیں اور سلام پھیر کر تکبیر تشریق اور لبیک کہیں، مسافر ہوں تو عشاء کے دو فرض اور مقیم ہوں تو چار فرض ادا کریں ، اس کے بعد مغرب کی دو سنت پھر عشاء کی دو سنت اور تین وتر ادا کریں، نفل پڑھنے کا اختیار ہے مگر ان دو فرضوں کے درمیان سنت اور نفل نہ پڑھیں اور یہ دو فرض ملا کر پڑھنے واجب ہیں ، خواہ باجماعت پڑھیں یا علیحدہ کیونکہ ان کو باجماعت پڑھنا شرط نہیں ہے ہاں باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ (غنیۃ)۔۔۔۔اگر کسی نے مغرب کی نماز عرفات میں راستہ میں پڑھ لی تو مزدلفہ پہنچ کر اس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ (حیات)
مسئلہ: اگر کوئی حاجی صاحب عشاء کے وقت سے پہلے مزدلفہ پہنچ گئے تو ابھی مغرب کی نماز نہ پڑھیں، عشاء کے وقت کا انتظار کریں اور عشاء کے وقت میں دونوں نمازوں کو جمع کریں۔ (عمدہ)
مسئلہ: اگر عرفات سے مزدلفہ آتے ہوئے راستہ میں خطرہ ہو کہ مزدلفہ میں پہنچنے تک فجر ہو جائے گی تو پھر راستے میں مغرب اور عشاء کی نماز پڑھیں۔ (حیات)
کنکریاں چننا
مزدلفہ سے رات ہی کو فی آدمی ستر ۷۰ کنکریاں چھوٹے یا بڑے چنے کے برابر چن لیں تاکہ منٰی میں مارنے کے کام آئیں اور یہ ستر کنکریاں یہاں سے چننا بلا کراہت جائز ہے۔ (غنیۃ) اور ان کنکریوں کو دھو کر مارنا مستحب ہے اور صرف سات کنکریاں جمرۃ العقبہ کی رمی کے لیے یہاں سے اُٹھانا مستحب ہے۔ (احکام حج)
مسئلہ: بڑے پتھر کو توڑ کر چھوٹی کنکریاں بنانا مکروہ ہے۔ (معلم) لہٰذا ایسا کرنے سے پرہیز کریں۔
وقوف مزدلفہ
٭ جب صبح صادق ہو جائے تو اندھیرے ہی میں اذان دیں، فجر کی سنتیں پڑھیں اور پھر فجر کے فرض باجماعت ادا کریں۔ صبح صادق ہوتے ہی وقوف مزدلفہ شروع ہو جائے گا اور یہ واجب ہے جس کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے، اگر کوئی شخص فجر کے بعد ایک لمحہ بھی جان کر یا بھول کر یہاں ٹھہر جائے تو اس کا یہ وقوف ادا ہو جائے گا۔ البتہ صبح کی روشنی خوب پھیلنے تک وقوف کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ (عمدہ)
اگر وقت مذکور میں کسی شخص نے بلاعذر کے ذرا دیر بھی یہ وقوف نہ کیا اور رات ہی کو صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے چلا گیا تو اس پر دم واجب ہوگا۔ البتہ عورتیں، بچے، بوڑھے کمزور اور بیمار لوگ اگر رات ہی مزدلفہ سے منٰی چلے جائیں تو کچھ حرج نہیں، جائز ہے ان پر دم واجب نہیں۔ (حیات) البتہ مرد حضرات اگر بیماری اور بہت بڑھاپے کے عذر کے بغیر یہ وقوف ترک کریں گے تو ان پر دم واجب ہوگا۔ (غنیۃ)
طریقہ وقوف
وقوف مزدلفہ کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ نماز فجر ادا کرکے قبلہ رُخ ہو جائیں اور ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُلِِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ اور چوتھا کلمہ پڑھیں اور درُود شریف پڑھیں اور کثرت سے تلبیہ کہیں اور دُعا کے لیے دونوں ہاتھ پھیلائیں، ہتھیلیوں کا رُخ آسمان کی طرف کریں پھر دُنیا و آخرت کی بھلائیاں اپنے اور اپنے اہل و عیال، والدین، مشائخ، اقارب اور تمام مسلمانوں کے لیے مانگیں۔
یاد رکھیںٖ! یہ وقت دُعا کی قبولیت کا خاص وقت ہے۔ (حیات) لہٰذا برابر ذکر و دُعا اور تلبیہ میں مشغول رہیں۔ یہاں تک کہ فجر کی روشنی خوب پھیل جائے اور جب سورج نکلنے کے قریب ہو جائے اس وقت مزدلفہ سے منٰی روانہ ہو جائیں، اس کے بعد تاخیر کرنا خلاف سنت ہے لیکن اس سے کچھ لازم نہیں ہوتا۔ (حیات)
منٰی واپسی
مزدلفہ میں جب سورج نکلنے میں ذرا سی دیر رہ جائے تو منٰی چلیں اور راستہ بھر یہی اذکار جن کا ابھی اوپر ذکر آیا ہے، کرتے رہیں، بکثرت تلبیہ پڑھتے رہیں اور دل و جان سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں اور جب وادیٔ محشر سے گزریں تو عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے تیزی سے گزریں۔ (حیات) اور منٰی میں اپنی قیام گاہ پہنچ جائیں۔ اب منٰی میں کم از کم تین دن آپ کا قیام ہوگا، صرف طواف زیارت کے لیے ایک روز مکہ مکرمہ جانا ہوگا جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
حج کا تیسرا دن، ۱۰ ذی الحجہ
آج کا دن بڑا مصروف دن ہے اس دن ہر حاجی کو بہت سے کام انجام دینے ہیں، انہیں ترتیب سے یہاں لکھا جاتا ہے، اطمینان سے ہدایات کے مطابق انہیں انجام دیں۔
جمرۂ عقبہ کی رمی
جب آپ منٰی پہنچ جائیں تو سب سے پہلے جمرۃ العقبہ کو سات کنکریاں ماریں! اور کنکریاں مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ جمرۃ العقبہ سے کم از کم پانچ ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑے ہوں، اس سے کچھ زیادہ فاصلہ ہو تو بھی حرج نہیں، پھر داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی اُنگلی سے ایک کنکری پکڑیں اور ’’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہہ کر جمرہ کے ستون کی جڑ پر پھینک دیں، کچھ اوپر بھی لگ جائے تو کچھ حرج نہیں تاہم اس کے احاطے میں کنکری گرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر کنکری کے ساتھ ’’بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہتے رہیں اور الگ الگ سات کنکریں ماریں، اگر دُعاء ذیل زبانی یاد ہو تو مانگ لیں تاہم ضروری نہیں ہے۔
۔’’رَغْمًا لِلشَّیْطَانِ وَ رِضًا لِلرَّحْمٰن۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَّبْرُوْرًا وَسَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَذَنْبًا مَغْفُوْرًا‘‘ … ترجمہ:…’’یہ کنکریاں شیطان کو ذلیل اور خدائے پاک کو راضی کرنے کے لیے مارتا ہوں۔ اے اللہ! میرے حج کو قبول فرما اور میری کوشش کو مقبول بنا اور گناہوں کو معاف فرما۔ آمین‘‘ (حیات)
مسئلہ: رمی میں کنکری جمرہ کی جڑ میں یا اس کے نزدیک احاطہ میں گرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے اسی ستون پر اتنی زور سے کنکری ماری کہ وہ ستون کو لگ کر احاطہ سے دور جا پڑی تو یہ رمی جائز نہ ہوگی دوبارہ کرنا ہوگی۔ (عمدہ)
جمرۃ العقبہ کو کنکر مارتے ہی ’’لَبَّیْکَ‘‘ کہنا بند کردیں اور آج کی تاریخ میں کنکری مارنے کے بعد دُعا کے لیے ٹھہرنا سنت نہیں ہے۔ رمی کے بعد اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے آئیں اور یاد رکھیں آنے والے بقیہ دنوں میں کنکریاں مارنے کا بھی یہی طریقہ ہے جو لکھا گیا ہے۔ (حیات)
مسئلہ: رمی پل کے اوپر سے جائز ہے۔ (ماخذ عمدہ)
رمی کے اوقات
اوقات سمجھ لیں! آج کی رمی کا مسنون وقت طلوع آفتاب سے زوالِ آفتاب تک ہے۔ ٭ زوالِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک رمی کا وقت بلا کراہت جائز ہے۔ ٭ غروبِ آفتاب سے صبح صادق تک مکروہ ہے مگر خواتین کے لیے مکروہ نہیں۔ (عمدہ بتصرف)
٭ اور نیز ۱۰ تاریخ میں صبح صادق سے طلوع آفتاب کا وقت بھی رمی کرنے کے لیے کراہت کے ساتھ جائز ہے مگر عورتوں اور کمزوروں کے لیے مکروہ نہیں۔ (عمدہ بتصرف)
چونکہ آج کل بھیڑ بہت زیادہ ہوتی ہے اور ہر سال رمی کے دوران متعدد اموات ہو جاتی ہیں، اس لیے بھیڑ کے اندر رمی کرنے میں جان جانے یا سخت تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اور جان بچانا فرض ہے اور اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا شام کے وقت غروب آفتاب سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے کنکری مارنے جائیں۔ عموماً اس وقت بھیڑ نہیں ہوتی۔ اگر اس وقت ہجوم زیادہ نہ ہو، اسی وقت کنکری مار لیں اور اگر اس وقت بھی بھیڑ زیادہ ہو تو ابھی رمی نہ کریں، دور ہٹ کر کچھ انتظار کریں یا مغرب کی نماز پڑھ کر کنکری ماریں اور رات میں رمی کرنا اس وقت مکروہ ہے جب بلا عذر ہو اور عذر کی صورت میں کوئی کراہت نہیں۔ (حیات)
بہرحال کنکری مارنے کی یہ چار اوقات ہیں، ان میں سے جس وقت بھی سہولت ہو اس وقت کنکریاں مارنی چاہئیں۔ اوّل وقت ہی میں کنکری مارنے کی فکر کرنا خواہ جان چلی جائے، مناسب نہیں، حق تعالیٰ کی رُخصت اور سہولت پر خوشدلی سے عمل کرنا چاہیے۔
رمی خود کریں
مرد، عورت، بیمار و ضعیف سب خود جا کر اپنے ہاتھ سے رمی کریں، کسی دوسرے کو نائب بنا کر رمی کرنا بلا عذر شرعی جائز نہیں، آج کل اس مسئلہ میں بہت ہی غفلت پائی جاتی ہے، معمولی معمولی عذر میں حجاج دوسروں کے ذریعے اپنی رمی کروا لیتے ہیں۔ خصوصاً خواتین کی کنکریاں اکثر ان کے محرم مرد ان کی طرف سے بلا عذر شرعی مار آتے ہیں، یہ بالکل جائز نہیں، ایسا کرنے سے ان پر دم واجب ہو جاتا ہے، اس لیے خواتین و حضرات یہ سنگین غلطی نہ کریں اور بلا عذر شرعی اپنا واجب ترک کرکے گناہگار نہ ہوں اور اپنے حج کو ناقص نہ کریں۔ ہاں عذر شرعی میں کسی دوسرے کو حکم دے کر اور اپنا نائب بنا کر رمی کرانا جائز ہے اور شرعی عذر یہ ہے:
۔(۱) وہ مرد یا عورت جس کی طرف سے دوسرے شخص کو کنکری مارنا درست ہوتا ہے، یہ ہے کہ وہ اتنا بیمار یا کمزور ہوچکا ہو کہ اب وہ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتا بلکہ بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے۔ (۲) جمرات تک سوار ہو کر جانے میں بھی سخت تکلیف یا مرض بڑھ جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ (۳) یا پیدل چلنے کی قدرت نہیں اور جمرات تک جانے کے لیے سواری بھی نہیں ملتی تو ایسا شخص شرعاً معذور ہے، وہ دوسرے کو نائب بناکر اس سے اپنی رمی کراسکتا ہے۔ (احکامِ حج)
ضروری مسئلہ
مذکورہ مسئلہ میں ایک ضروری بات یہ بھی یاد رکھیں کہ جو مرد یا عورت خود جاکر کنکری مارنے سے شرعاً معذور ہو اس کا کسی دوسرے سے اپنی رمی کرانے کے معتبر ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود کسی دوسرے کو اپنی کنکری مارنے کا حکم دے، یعنی دوسرے سے یوں کہے کہ آپ جاکر میری بھی کنکری ماریں! اگر اس نے کسی کو حکم نہ دیا اور کسی ہمراہی نے یا شوہر یا محرم نے اس کے حکم کے بغیر خود اس کی طرف سے کنکریاں ماریں تو وہ معتبر نہ ہوں گی، اگر وقت باقی ہو تو کہہ کر اپنی رمی دوبارہ کرائیں ورنہ دم واجب ہوگا۔ (عمدہ بتصرف کثیر)
قربانی
جمرۃ العقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد قربانی کرنی ہے لیکن پہلے یہ دیکھ لیں کہ آپ نے کون سا حج کیا ہے۔ اگر آپ نے حج تمتع یا حج قِران کیا ہے تو حج کی قربانی کرنا واجب ہے اور اگر حج افراد کیا ہے تو حج کی قربانی واجب نہیں، مستحب ہے۔ ٭ قربانی آج ۱۰ تاریخ میں کرنا ضروری نہیں ہے اس کے لیے تین دن مقرر ہیں ۱۰؍۱۱؍۱۲ ذی الحجہ کے آفتاب غروب ہونے تک رات میں اور دن میں جب چاہیں قربانی کرسکتے ہیں۔ ٭ عموماً ۱۱ تاریخ کو صبح کے وقت قربانی کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس آسانی پر عمل کرنا چاہیے۔ بلاضرورت اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنا مناسب نہیں۔
اور جن خواتین و حضرات پر حج کی قربانی واجب ہے وہ سر کے بال اور ناخن وغیرہ قربانی کے بعد ہی کتر سکتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر انہوں نے قربانی سے پہلے سر کے بال منڈوالیے تو ان پر دم واجب ہو جائے گا، اس لیے وہ بہت احتیاط سے کام لیں۔ ہاں اگر حج افراد کرنے والا حاجی قربانی سے پہلے سر کے بال منڈا لے یا ناخن کتر لے تو اس پر دم واجب نہ ہوگا کیونکہ اس پر حج کی قربانی واجب نہیں مستحب ہے۔
٭ جو حجاج قربانی کرنا جانتے ہوں انہیں خود اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا افضل ہے ورنہ کسی قابل اعتماد شخص کے ذریعے قربانی کرائیں ، بینک یا کسی اور ادارہ کے ذریعہ قربانی کرانے سے اجتناب کریں۔
توجہ دیں
حج کی قربانی کے جانور میں وہ تمام شرائط ضروری ہیں جو بقر عید کی قربانی کے جانور میں ہیں اس لیے حج کی قربانی کا جانور خوب اچھی طرح دیکھ بھال کر صحیح سالم، بے عیب اور پوری عمر کا خریدنا چاہیے تاکہ قربانی صحیح ادا ہو۔ (ملخص از معلم)
مالی قربانی کا حکم
٭ جو خواتین و حضرات مسافر ہوں ان پر بقر عید کی مال والی قربانی واجب نہیں اور جو مقیم ہوں اور قربانی واجب ہونے کی دیگر شرائط ان میں موجود ہوں تو ان پر بقر عید کی مال والی قربانی بھی واجب ہے، پھر انہیں اختیار ہے خواہ یہ قربانی منٰی میں کریں یا اپنے وطن میں کرائیں لیکن بہرحال مال والی قربانی، حج والی قربانی سے الگ واجب ہوتی ہے۔ (معلم بتصرف کثیر)
حلق و قصر
٭ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد مرد حضرات اپنا سر منڈوالیں اور خواتین اُنگلی کے ایک پورے سے کچھ زیادہ بال پوری چوٹی سے کاٹ دیں اور وہ اس بات کا یقین حاصل کرلیں کہ کم از کم ان کے سر کے چوتھائی بال ضرور کٹ گئے ہیں۔ ٭ واضح رہے کہ سر منڈانے سے پہلے خط بنوانا یا ناخن کترنا یا جسم کے کسی اور حصہ کے بال کاٹنا جائز نہیں، اگر غلطی سے ایسا کرلیا تو جزا واجب ہوگی (معلم) تفصیل بتا کر مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔
٭ سر کے بال منڈانا آج ہی ضروری نہیں ہے۔ ۱۲ ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک یہ کام ہوسکتا ہے لیکن جب تک حلق یا قصر نہیں ہوگا، آپ احرام ہی میں رہیں گے۔ خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے اور جب حلق یا قصر ہو جائے گا تو احرام کی بیشتر پابندیاں ختم ہو جائیں گی، سلا ہوا کپڑا پہننا، خوشبو لگانا، ناخن اور بال کاٹنا سب حلال ہو جائے گا۔ البتہ بیوی سے صحبت کرنا، بوس و کنار کرنا طواف زیارت کرنے تک حلال نہ ہوگا۔ ٭ حج کا حلق یا قصر منٰی میں کرنا سنت ہے اور حرم میں ہر جگہ جائز ہے۔ البتہ اگر حدود حرم سے باہر جاکر حلق یا قصر کیا تو دم لازم ہوگا۔ (عمدہ)
اہم ہدایت
جمرۃ العقبہ کو کنکریاں مارنا پھر قربانی پھر سر کے بال کترنا یہ تینوں عمل واجب ہیں اور جس ترتیب سے ان کو لکھا گیا ہے ، اسی ترتیب سے ان کو ادا کرنا واجب ہے، اگر ان میں سے کوئی عمل چھوٹ جائے یا ان کی مذکورہ ترتیب بدل جائے تو عام طور پر ایک دم واجب ہوگا اور بعض صورت میں ایک سے زیادہ دم بھی واجب ہوں گے، اس لیے حجاج کرام ان سب کو ترتیب سے ادا کرنے کی فکر کریں۔ اگر غلطی ہو جائے تو معتبر علماء اور اہل فتویٰ سے رجوع کریں۔
طواف زیارت
آج کی تاریخ یعنی ۱۰ ذی الحجہ کا سب سے اہم کام طواف زیارت ہے، رمی، قربانی اور سر کے بال کترنے کے بعد طواف زیارت کرنا سنت ہے، اگر طواف زیارت ان اُمور سے پہلے کیا جائے تب بھی فرض ادا ہو جائے گا مگر ایسا کرنا خلافِ سنت ہے۔
طوافِ زیارت کا وقت
طوافِ زیارت کا وقت ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے آفتاب غروب ہونے تک ہے۔ ان تینوں دنوں میں رات کو یا دن میں جب چاہیں مکہ معظمہ جاکر طواف زیارت کریں، عموماً پہلے روز سخت ہجوم ہوتا ہے، دوسرے یا تیسرے روز زیادہ بھیڑ نہیں ہوتی، اس لیے دوسرے یا تیسرے دن یہ طواف کرنا چاہیے اور اس کے ادا کرنے کا وہی طریقہ ہے جو عمرہ کے بیان میں طواف کے طریقہ میں لکھا گیا ہے، وہاں دیکھ لیں ضروری فرق ذیل میں ہے۔ ٭ طوافِ زیارت کے لیے خواہ احرام باندھے ہوئے آئیں اور خواہ قربانی اور حلق سے فارغ ہوکر کپڑے پہن کر کریں، دونوں طرح اختیار ہے، اگر احرام باندھے ہوئے طوافِ زیارت کرنا ہے اور حج کی سعی بھی کرنی ہے تو رمل (اکڑ کر طواف کے پہلے تین چکروں میں چلنا) بھی کریں اور اضطباع بھی کریں۔ ٭ طوافِ زیارت کے بعد سعی کریں، یعنی صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائیں، اس کا طریقہ بھی عمرہ کے بیان میں لکھا گیا ہے، وہاں دیکھ لیں اور اگر حج کی سعی پہلے کرلی ہے تو اب سعی کرنے کی ضرورت نہیں، صرف طواف کرنا کافی ہے۔ رات کو منٰی واپس آجائیں، دن میں مکہ معظمہ ٹھہر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اپنی قیام گاہ پر آجائیں، کوئی چیز رکھنی ہو یا لینی ہو لے لیں۔
٭ طوافِ زیارت کرنے کے بعد ممنوعاتِ احرام سب حلال ہو جاتے ہیں اور بیوی سے ہمبستر ہونا اور بوس و کنار کرنا سب حلال ہو جاتا ہے۔ ٭ اگر کسی عورت کو ماہواری آرہی ہو تو اس کو اس حالت میں طوافِ زیارت کرنا حرام ہے اور سخت گناہ ہے، اس لیے وہ اس حالت میں بالکل طوافِ زیارت نہ کرے بلکہ جب وہ پاک ہو جائے اور غسل کرلے، اس وقت طوافِ زیارت اور سعی کرے، اگر اس مجبوری سے ۱۲ ذی الحجہ کے ایام بھی نکل جائیں تب بھی کوئی حرج نہیں، معذور ہے اور بعد میں طوافِ زیارت کرنے سے یہ طواف ادا ہو جائے گا اور حج میں کوئی خلل واقع نہ ہوگا۔
طوافِ زیارت کی اہمیت
یاد رہے کہ طوافِ زیارت حج کا رُکن اورفرض ہے۔ یہ کسی حال میں بھی نہ فوت ہوتا ہے اور نہ اس کا بدل دے کر ادا ہوسکتا ہے بلکہ آخر عمر تک اس کی ادائیگی فرض رہے گی اور جب تک اس کو ادا نہ کرے گا بیوی سے صحبت اور بوس و کنار کرنا حرام رہے گا۔ (عمدہ) اس لیے خواتین و حضرات اس کی ادائیگی کا خاص اہتمام فرمائیں اور بغیر طوافِ زیارت کیے ہرگز وطن واپس نہ لوٹیں، خواہ چھٹیاں ختم ہو جائیں یا سیٹ نکل جائے لیکن یہ طواف ضرور ادا کرکے آجائیں۔
حج کا چوتھا دن، ۱۱ذی الحجہ
گیارہ تاریخ کو زوال کے بعد تینوں جمرات پر سات سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری مارتے وقت یہ پڑھیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ رَغْمًا لِلشَّیْطَانِ وَرِضًا لِلرَّحْمٰنِ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ حَجَّا مَّبْرُوْرًا وَسَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَذَنْبًا مَّغْفُوْرًا‘‘ … ترجمہ:۔۔۔ ’’یہ کنکریاں شیطان کو ذلیل اور خدائے رحمن کو راضی کرنے کے لیے مارتا ہوں۔ اے اللہ! میرے حج کو قبول فرما اور میری کوشش مقبول بنا اور گناہوں کو معاف فرما۔‘‘ (حیات)
٭ آج کی یہ کنکریاں مارنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے جمرۂ اولیٰ پر سات کنکریاں اوپر والے کلمات پڑھ کر ماریں، اس کے بعد ذرا سا آگے بڑھ کر قبلہ رُخ ہوکر اور ہاتھ اُٹھا کر چند بار ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کہیں، پھر درُود شریف پڑھیں اور پھر اپنے لیے، عزیز و اقارب اور سب مسلمانوں کے لیے خوب دُعا کریں۔
اس کے بعد جمرۂ وسطیٰ پر سات کنکریاں بالکل اسی طرح ماریں جیسے جمرۂ اولیٰ پر ماری تھیں اور اسی طرح قبلہ رُخ ہوکر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور ذکر و تسبیح کے بعد خوب دُعا کریں۔
اس کے بعد جمرۂ عقبہ پر طریقۂ بالا کے مطابق سات کنکریاں ماریں لیکن اس کی رمی کے بعد ٹھہر کر دُعا وغیرہ کچھ نہ کریں، اپنی قیام گاہ پر واپس آجائیں، آج صرف یہی کام تھا جو پورا ہوگیا، اب باقی اوقات تلاوت، ذکر اللہ اور دُعا میں مشغول رکھیں، غفلتوں، گناہوں، فضول کاموں اور باتوں میں ضائع نہ کریں، لڑائی جھگڑوں اور غیبت وغیرہ سے خاص طور پر بچیں۔
رمی کے اوقات
٭ آج کی رمی کا مستحب وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ ٭ غروبِ آفتاب کے بعد سے بارہویں تاریخ کی صبح ہونے تک مکروہ وقت ہے۔ (حیات)
اوّل وقت میں کنکری مارنے والوں کا بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے اور بعض اوقات جان کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے، اس لیے غروبِ آفتاب سے پہلے ہجوم چھٹنے کا انتظار کریں اور یہ بھی درست ہے کہ مستحب وقت کے آخری وقت میں کنکری مارنے جائیں۔ مثلاً غروبِ آفتاب سے ایک گھنٹہ پہلے کنکری مارنے جائیں اور زیادہ بھیڑ نہ ہو تو غروب آفتاب سے پہلے کنکریں ماریں، اگر اس وقت بھی بھیڑ زیادہ ہو تو مغرب کے بعد یا عشاء کے بعد کنکری ماریں، عذر کی بناء پر رات کو کنکری مارنے میں کوئی کراہت نہ ہوگی اور واجب ادا ہو جائے گا اور جان کا قوی خطرہ یا ناقابل برداشت تکلیف کا قوی اندیشہ بھی معتبر عذر ہے۔
زوال سے پہلے رمی کرنا
واضح رہے کہ زوال سے پہلے رمی جائز نہیں ہے کیونکہ زوال سے پہلے رمی کا وقت شروع نہیں ہوتا، اگر کسی نے غلطی سے اس وقت رمی کرلی تو وہ معتبر نہ ہوگی اور وقت شروع ہونے پر دوبارہ رمی کرنی ہوگی ورنہ دم واجب ہوگا اور قضا کے وقت رمی کی قضا بھی واجب ہوگی اور وقتِ قضا ۱۳؍ذی الحجہ کے آفتاب غروب ہونے تک ہے (معلم) لیکن قضا کرنے سے دم ساقط نہ ہوگا۔ وہ بہرحال ادا کرنا ہوگا۔ (غنیۃ)
حج کا پانچواں دن، ۱۲ذی الحجہ
آج کا خاص کام صرف تین جمرات پر سات سات کنکریاں بالکل اسی طرح اور انہی اوقات میں ماری جانی ہیں جس طرح ۱۱ ذی الحجہ کو آپ نے ماری ہیں، صرف تاریخ کا فرق ہے اور کچھ فرق نہیں۔ آج کی رمی کرنے کے بعد آپ کو اختیار ہے کہ منٰی میں مزید قیام کریں یا مکہ مکرمہ آ جائیں، اگر مکہ مکرمہ آنے کا ارادہ ہے تو غروبِ آفتاب سے پہلے حدودِ منٰی سے نکل جائیں، اگر بارہویں تاریخ کا آفتاب منٰی میں غروب ہوگیا تو اب منٰی سے نکلنا مکروہ ہے، ایسی صورت میں آپ کو چاہیے کہ آج کی رات منٰی میں قیام کریں اور تیرہ تاریخ کی رمی کرکے مکہ معظمہ جائیں۔
واضح رہے کہ بارہ تاریخ کو غروبِ آفتاب کے بعد اور تیرہ تاریخ کی صبح صادق ہونے سے پہلے منٰی سے مکہ مکرمہ جانا کراہت کے ساتھ جائز ہے لیکن اگر کوئی چلا گیا تو دم وغیرہ واجب نہ ہوگا۔ البتہ اگر منٰی میں تیرہویں تاریخ کی صبح ہوگئی تو اب اس دن کی رمی بھی واجب ہوگئی، اب بغیر رمی کیے مکہ مکرمہ جانا جائز نہیں ہے، اگر کوئی حاجی بغیر رمی کیے مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس پر دم واجب ہوگا۔ ٭ ۱۳ ذی الحجہ کی رمی کا بالکل وہی طریقہ ہے جو گیارہ تاریخ کا اوپر لکھا گیا ہے، اس کے اوقات بھی وہی ہیں۔ البتہ اس تاریخ کی صبح صادق سے لے کر زوال سے پہلے کرنا بھی کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ (معلم)
حج پورا ہوگیا
الحمدللہ! آپ کا حج پورا ہوگیا۔ منٰی سے واپسی کے بعد جتنے دن مکہ معظمہ میں قیام ہو اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور جتنا ہوسکے طواف، عمرے، نماز، روزے، صدقہ خیرات اور ذکر و تلاوت اور دیگر نیک کام کرلینے چاہئیں، پھر معلوم نہیں یہ وقت ملے یا نہ ملے، موت کا وقت ہم کو معلوم نہیں۔
٭ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حرم کی ہر نیکی ایک لاکھ کے برابر ہے۔ لہٰذا جو نیکی ہو جائے غنیمت ہے، ایک قرآن کریم ختم کریں تو ایک لاکھ قرآن کریم ختم کرنے کا ثواب ملے۔ ٭ ایک ریال خیرات کریں تو ایک لاکھ ریال خیرات کرنے کا ثواب ملے۔ ٭ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھیں تو ایک لاکھ مرتبہ کا ثواب ملے، اس میں سے ستر ہزار کلمہ کسی کو بخش دیں تو اُمید ہے کہ اس کو دوزخ سے نجات مل جائے۔ ٭ ’’اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ‘‘ درُود شریف، ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ اور ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ‘‘ ایک بار پڑھیں تو ایک لاکھ مرتبہ کا ثواب ملے۔
٭ دو رکعت نفل پڑھیں تو دو لاکھ رکعت کا ثواب ملے، اس لیے اشراق، چاشت، سنن زوال، اوّابین، قیام اللیل، تہجد، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد اور عام نوافل کا اہتمام کریں اور ایک لاکھ کا ثواب حاصل کریں۔ ٭ ایک مرتبہ صلوٰۃ التسبیح پڑھنے سے ایک لاکھ صلوٰۃ التسبیح کا ثواب ملے۔ ٭ ایک روزہ رکھنے سے ایک لاکھ روزوں کا ثواب حاصل کریں۔ ٭ ایک محتاج کو کھانا کھلائیں تو جیسے ایک لاکھ محتاجوں کو کھانا کھلایا۔ ایک مرتبہ ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ پڑھنے سے ایک لاکھ کا ثواب ملے۔ ایک مرتبہ عمرہ یا طواف کرنے سے ایک لاکھ عمرہ یا طواف کا ثواب ملے۔
لہٰذا خوب نیک کام کریں اور انتہائی اہتمام سے گناہوں سے بچیں اور آئندہ زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور آپ کی سنتوں پر عمل کرنے میں گزارنے کا عہد کریں اور خوب گڑگڑا کر دُعا کریں، وہی توفیق دینے والے ہیں۔ نیز اپنے والدین، شوہر، پیر و مرشد اور عزیز و اقارب کی طرف سے بھی نیک کام، طواف اور عمرے حسب استطاعت کریں، پھر معلوم نہیں یہ موقع نصیب ہو یا نہ ہو۔
حج سے واپسی اور طواف وداع
حج کے بعد جب مکہ مکرمہ سے وطن واپس ہونے کا ارادہ ہو تو پھر طواف وداع واجب ہے، اس طواف کا طریقہ بالکل وہی ہے جو نفل طواف کرنے کا ہوتا ہے۔ اس کے مطابق طواف کریں، یہ حج کا آخری واجب ہے اور حج کی تین قسموں میں سے ہر قسم کا حج کرنے والوں پر واجب ہے۔ البتہ جو خواتین و حضرات مکہ مکرمہ اور حدودِ میقات کے اندر رہنے والے ہوں ان پر یہ طواف واجب نہیں ہے۔
طواف سے فارغ ہوکر ملتزم پر خوب دُعائیں کریں، آب زمزم پئیں اور حسرت و افسوس کرتے ہوئے اُلٹے پاؤں واپس ہوں۔ (معلم بتصرف) حرم سے باہر آکر خوب دُعائیں کریں اور یہ دُعا بھی کریں:۔
۔’’یا الٰہ العالمین! اس مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اور آپ کے نیک بندوں نے جو جو دُعائیں مانگی ہیں اور وہ قبول کرلی گئی ہیں، مجھ کو ان دُعاؤں میں شامل فرمالیجئے، میری اولاد، والدین اور تمام مسلمانوں کے حق میں قبول کرلیجئے اور جن جن لوگوں نے مجھے دُعاؤں کے لیے کہا تھا ان سب کی نیک مرادیں بھی پوری فرمادیجئے اور حج و عمرہ کی سعادت صحت و عافیت کے ساتھ بار بار عنایت کیجئے اور میری اس حاضری کو آخری حاضری نہ بنایئے۔‘‘ (آمین)
خواتین کے لیے
٭ جو خاتون حج کے سب ارکان و واجبات ادا کرچکی ہو، صرف طواف وداع باقی ہو اور محرم اور دیگر رُفقاء روانہ ہونے لگیں اس وقت اگر حیض یا نفاس شروع ہو جائے تو طواف وداع ان کے ذمہ نہیں رہتا، ساقط ہو جاتا ہے ۔ اس کو چاہیے کہ مسجد میں داخل نہ ہو بلکہ حرم شریف کے دروازہ کے پاس کھڑی ہوکر دُعا مانگ کر رُخصت ہو جائے، خاتون کے محرم اور دیگر رفقاء سفر پر لازم نہیں ہے کہ وہ اس کے پاک ہونے تک ٹھہریں، اپنی صوابدید کے مطابق جب چاہیں روانہ ہو جائیں اور یہ خاتون بھی ان کے ساتھ چلی جائے۔ (حیات بتصرف) اور اس مجبوری سے طواف وداع چھوڑنے سے خاتون پر کچھ واجب نہ ہوگا۔
واضح ہو کہ طواف وداع کے لیے نیت ضروری نہیں، ہاں مستقل نیت سے طواف وداع کرنا افضل ہے۔ اس لیے اگر واپسی سے پہلے حیض و نفاس شروع ہونے سے پہلے کسی عورت یا مرد نے کوئی نفل طواف کرلیا ہو تو وہ بھی طواف وداع کے قائم مقام ہو جائے گا۔ (معلم بتصرف)
روضۂ اقدس کی زیارت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور اس کے بعد میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں) انہی لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (رواہ البیہقی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (ابن خزیمہ)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ (رواہ ابن عدی بسند حسن)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے پاس کھڑے ہوکر مجھ پر درُود پڑھتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں۔ (رواہ البیہقی)
فائدہ:۔۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور یہ بات جمہور اُمت کے مسلمات میں سے ہے، اس لیے آپ کے جو اُمتی قبر مبارک پر حاضر ہوکر سلام عرض کرتے ہیں، آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں وفات کے بعد آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہونا اور سلام عرض کرنا ایک طرح بالمشافہ سلام پیش کرنے کے برابر ہے جو بلاشبہ ایسی عظیم سعادت ہے جو ہر زائر کو تمام آداب کے ساتھ ہر قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
عظیم سعادت
حج کے بعد سب سے افضل اور سب سے بڑی سعادت سیدالانبیاء رحمۃ للعالمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت وہ چیز ہے جس کے بغیر ایمان درست نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا دیارِ مقدس میں پہنچنے کے بعد اب روضۂ اقدس کے سامنے خود حاضر کر درُود و سلام پیش کرنے کی سعادت اور اس پر ملنے والے بے شمار ثمرات و برکات حاصل کریں جو دور سے درُود و سلام پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتے۔ جن خواتین و حضرات پر حج فرض ہو ان کے لیے پہلے حج کرنا اور زیارت مدینہ کے لیے بعد میں جانا بہتر ہے اور جن پر حج فرض نہ ہو انہیں اختیار ہے۔ خواہ پہلے مدینہ منورہ حاضر ہوں اور بعد میں حج کریں یا حج پہلے کریں اور مدینہ منورہ بعد میں حاضر ہوں۔ (زبدہ بتصرف)
۔(۱) جب مدینہ منورہ کا سفر شروع کریں تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت کی نیت کریں اور یوں نیت کریں:’’اے اللہ میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ کا سفر کرتا ہوں، اے اللہ! اسے قبول فرمالیجئے۔‘‘ (عمدہ المناسک بتصرف کثیر)
۔(۲) مدینہ منورہ جاتے وقت احرام کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ واپسی پر اگر مکہ مکرمہ آنا ہو تو احرام باندھنا ہوگا اس لیے احرام کے لوازمات ساتھ رکھیں۔ (۳) سفر مدینہ میں سنتوں پر عمل کرنے کا بہت ہی خیال رکھیں۔ اس کے لیے ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ‘‘ بطور خاص مطالعہ رکھیں۔ (۴) اس سفر میں ذوق و شوق اور پورے دھیان اور توجہ سے زیادہ سے زیادہ درُود پاک پڑھیں، نماز والا درُود شریف سب سے افضل ہے۔ (۵) جب مدینہ منورہ کی آبادی اور مکانات نظر آئیں تو اپنے شوق دیدار کو اور زیادہ کریں اور خوب درُود و سلام پڑھتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخل ہوں۔
مسجد نبوی میں حاضری
۔(۱) معلم کے یہاں سامان رکھ کر غسل کریں تو بہتر ہے ورنہ وضو کریں، اچھا لباس پہنیں اور خوشبو لگائیں اور مسجد نبوی کی طرف ادب و احترام کے ساتھ چلیں، نفلی صدقہ کریں۔ (۲) باب جبرئیل معلوم ہو تو پہلی مرتبہ اس میں داخل ہونا افضل ہے یا باب السلام سے ورنہ جس دروازہ سے داخل ہوں درست ہے داخل ہوتے وقت یہ کہیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ رَبِّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘‘ اور دایاں قدم مسجد کے اندر رکھیں اور نفلی اعتکاف کی نیت کریں۔
سیدھے ریاض الجنۃ آ جائیں، اگر بآسانی آسکیں ورنہ جہاں جگہ مل جائے اور مکروہ وقت بھی نہ ہو تو وہاں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں۔ پھر محراب النبی کے پاس آئیں، اگر آسانی سے آسکیں یہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر مبارک تھا، اس جگہ شکرانہ کی دو نفلیں پڑھیں اور نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ کا دل سے شکر ادا کریں کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے یہاں تک پہنچا دیا اور دُعا کریں کہ میں اب سلام عرض کرنے جا رہا ہوں، میرا سلام قبول ہو جائے۔
روضۂ اقدس پر سلام
۔(۱) اب بڑے ادب و احترام کے ساتھ اور اپنی نالائقی اور رو سیاہی کے استحضار کے ساتھ روضۂ اقدس کی طرف چلیں، جب آپ جالیوں کے سامنے جہاں جالیوں میں چاندی کی تختی لگی ہوئی ہے، پہنچ جائیں تو اس جگہ بالکل سامنے تین گول سوراخ نظر آئیں گے، پہلے سوراخ پر آنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے ہے۔
۔(۲) لہٰذا جالیوں سے اندازاً چار قدم کے فاصلہ پر ادب سے کھڑے ہو جائیں، ہاتھ سیدھے کریں، نظریں نیچی کریں اور دھیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لگائیں اور اتنی آواز سے کہ جالیوں کے اندر والی دیوار تک آپ کی آواز چلی جائے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کریں اور یوں کہیں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ‘‘ اور یوں سمجھیں کہ میرا سلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا ہے اور آپ سلام کا جواب دیتے ہیں۔ لہٰذا میرے سلام کا جواب بھی آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔
۔(۳) اب پورے ادب و احترام اور دھیان کے ساتھ جس قدر ہوسکے، درُود و سلام پڑھیں جونسا درُود شریف چاہیں، آپ پڑھ سکتے ہیں مگر ہمارے اسلاف نے روضۂ اقدس پر اس طرح درُود و سلام پڑھنے کو لکھا ہے: ’’اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔۔۔ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ۔۔۔۔۔۔۔ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ‘‘۔
آپ بار بار یہ الفاظ دہراتے رہیں، یہ الفاظ دل سے ادا کریں اور پوری طرح دھیان حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رہے اور نماز میں جو درُود شریف پڑھا جاتا ہے وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
۔(۴) اس کے بعد دائیں طرف جالیوں میں دوسرا سوراخ ہے، اس کے سامنے کھڑے ہوکر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اس طرح سلام عرض کریں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ یَا اَبَا بَکْرِ نِ الصِّدِّیْقِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْکَ وَعَنَّا‘‘۔
۔(۵) اس کے بعد ذرا دائیں ہٹ کر تیسرے سوراخ کے سامنے کھڑے ہوکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرح سلام عرض کریں: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ یَا عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْکَ وَعَنَّا‘‘۔
۔(۶) اس کے بعد پھر اُلٹے ہاتھ کی طرف اسی پہلے سوراخ کے سامنے آ جائیں جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نمبر۳ میں لکھے ہوئے درُود و سلام یا نماز والا درُود شریف ذوق و شوق سے پڑھیں اور جن لوگوں نے آپ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرنے کو کہا ہے ان کا سلام اپنی زبان میں اس طرح پہنچا دیں۔ مثلاً ’’یا رسول اللہ! عبدالحکیم اور عبدالرؤف نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے، آپ ان کا سلام قبول فرمالیں اور وہ آپ سے شفاعت کے اُمیدوار ہیں۔‘‘۔
اگر نام یاد نہ آئے تو اس طرح عرض کریں: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے لوگوں نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے ان سب کا سلام قبول فرمالیجئے۔‘‘۔
۔(۷) پھر اس جگہ سے ہٹ کر ایسی جگہ چلے جائیں کہ آپ کے قبلہ رو ہونے میں روضۂ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ نہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے خوب رو رو کر اپنے اور اپنے والدین، اہل و عیال، ملنے جلنے والوں، دُعا کرانے والوں اور تمام مسلمانوں کے لیے دُعا کریں۔ بس اسی کو سلام کہتے ہیں۔ جب سلام عرض کرنا ہو تو اسی طرح عرض کیا کریں۔
۔(۸) جب تک مدینہ منورہ میں قیام رہے کثرت سے روضۂ اقدس کے سامنے حاضر ہوکر سلام عرض کیا کریں۔ خصوصاً پانچوں نمازوں کے بعد اگر کسی وقت سامنے حاضری کا موقع نہ ہو تو آپ مسجد نبوی میں بھی کسی جگہ سے سلام عرض کرسکتے ہیں۔ اگرچہ اس کی وہ فضیلت نہیں جو سامنے حاضر ہوکر عرض کرنے میں ہے۔ (احکامِ حج)
مسجد نبوی سے باہر بھی جب کبھی روضۂ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزریں تو تھوڑی دیر ٹھہر کر مختصر سلام عرض کرکے آگے بڑھیں۔ (احکامِ حج)
خواتین کا سلام
٭ خواتین کو بھی روضۂ اقدس کی زیارت اور سلام عرض کرنا چاہیے اور طریقہ سلام عرض کرنے کا اوپر لکھا گیا ہے، خواتین بھی اس کے مطابق سلام عرض کریں۔ البتہ (اگر حکومت کی طرف سے ممانعت نہ ہو) ان کے لیے رات کے وقت حاضر ہوکر سلام عرض کرنا بہتر ہے اور جب زیادہ ہجوم ہو تو کچھ فاصلہ ہی سے سلام عرض کردیا کریں۔اگر کسی خاتون کو ماہواری آ رہی ہو یا وہ نفاس کی حالت میں ہو تو گھر پر قیام کرے، سلام عرض کرنے کے لیے مسجد نبوی میں نہ آئے۔ البتہ اگر مسجد کے باہر باب السلام کے پاس یا کسی اور دروازہ کے پاس کھڑی ہوکر سلام عرض کرنا چاہے تو کرسکتی ہے اور جب پاک ہو جائے تو روضۂ مبارک پر سلام عرض کرنے چلی جائے۔
٭ مدینہ منورہ میں بھی خواتین کو گھر ہی میں نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ انہیں گھر میں نماز ادا کرنے سے مسجد نبوی کی جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ ( بدائع ص۱۱۳) لیکن اگر خواتین مسجد نبوی میں سلام عرض کرنے آئیں اور نماز کا وقت آنے پر مسجد نبوی کی جماعت میں شامل ہوکر نماز ادا کرلیں تو ان کی نماز ہو جائے گی۔
چالیس نمازیں
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں ادا کرے اور کوئی نماز اس کی فوت نہ ہو اس کے لیے دوزخ سے برأت لکھی جائے گی اور عذاب و نفاق سے برأت لکھی جائے گی۔ (رواہ احمد)
تشریح:۔۔۔۔اس حدیث پاک سے مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں کی برکت سے نمازی کو عذاب دوزخ اور نفاق سے بری فرما دیتے ہیں۔ اس لیے مسجد نبوی کی نمازوں کا خاص اہتمام رکھنا چاہیے اور چالیس نمازیں ادا کرکے یہ عظیم فضیلت حاصل کرنی چاہیے لیکن مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنا فرض یا واجب نہیں ہے اور یہ نمازیں ادا کرنا حج کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چالیس نمازیں مسجد نبوی میں ادا نہ کرسکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور اس کے حج و عمرہ میں کوئی کمی نہیں۔
٭ خواتین کے لیے مدینہ منورہ میں بھی گھر میں نمازیں پڑھنا افضل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ انہیں گھر میں چالیس نمازیں پڑھنے کا ثواب بھی مل جائے گا، اس لیے خواتین مسجد نبوی میں چالیس نمازیں ادا کرنے کی فکر نہ کریں، اپنے گھروں میں نمازیں ادا کریں، ہاں کبھی نماز کے وقت مسجد میں ہوں اور مسجد کی جماعت میں شامل ہو جائیں تو ان کی نماز ہو جائے گی اور اگر ماہواری کے عذر کی بناء پر خواتین چالیس نمازیں گھر میں بھی پوری نہ کرسکیں تو بھی کچھ مضائقہ نہیں بلکہ اس قدرتی اور غیراختیاری معذوری سے قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ خواتین کو محروم نہیں فرمائیں گے، خواتین ہر نماز کے وقت وضو کرکے گھر ہی میں مصلے پر بیٹھ کر تھوڑا بہت ذکر کرلیا کریں، یہی ان شاء اللہ تعالیٰ کافی ہے اور ضروری یہ بھی نہیں۔
سنت والی زندگی اپنانے کے لئے ہماری ویب سائٹ
https://readngrow.online
پر مطلوبہ کیٹگری میں دیکھئے ۔ اور مختلف اسلامی مواد سے باخبر رہنے کے لئے ویب سائٹ کا آفیشل واٹس ایپ چینل بھی فالو کریں ۔ جس کا لنک یہ ہے :۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0Aaif4o7qSPFms4g1M