جوکچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے

جوکچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے (ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی)۔

ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حج بڑی عجیب و غریب عبادت بنائی ہے ۔ اگر آپ حج کی عاشقانہ عبادت کو شروع سے آخر تک دیکھیں گے تو یہ نظر آئے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قدم قدم پر قاعدوں کے بت توڑے ہیں ۔ اب دیکھیں کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھوں نمازوں کے برابر ہے لیکن آٹھ ذی الحجہ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ مسجد حرام چھوڑو اور منیٰ میں جا کر پڑاؤ ڈالو۔ وہاں نہ حرم، نہ کعبہ ، اور نہ وہاں پہ کوئی کام ، نہ وقوف ہے ، نہ رمی جمرات ہے ۔ بس یہ حکم دے دیا کہ ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑو اور منیٰ کے جنگل میں جاکر پانچ نمازیں ادا کرو۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لیے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ نہ اس کعبہ میں کچھ رکھا ہے اور نہ حرم میں کچھ رکھا ہے ، نہ مسجد حرام میں کچھ رکھا ہے ۔ جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے ۔ جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام میں جا کر نماز پڑھو تو اب ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملے گا ۔ اور جب ہم نے کہہ دیا کہ مسجد حرام کو چھوڑو،اب اگرکوئی شخص مسجد حرام میں نمازپڑھے گا تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب تو کیا ملے گا بلکہ الٹا گناہ ہوگا ، اس لیے کہ اس نے ہمارے حکم کو توڑ دیا۔قرآن و سنت میں نماز وقت پر پڑھنے کی بہت تاکید وارد ہے ۔ فرمایا کہ :
ان الصلاۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا۔(النساء: ۱۰۳)
نماز کو وقت کے ساتھ پابند کیا گیا ہے ۔ وقت گزرنے سے پہلے نماز پڑھ لو ۔ مغرب کی نماز کے بارے میں حکم دے دیا کہ تعجیل کرو۔ جتنی جلدی ہوسکے پڑھ لو، تاخیر نہ ہو لیکن عرفات کے میدان میں مغرب کی نماز جلدی پڑھو گے تو نماز ہی نہ ہوگی۔ حضور اقدس ﷺ مغرب کے وقت عرفات کے میدان سے نکل رہے ہیں اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بار بار فرما رہے ہیں کہ ’’ الصلاۃ یا رسول اللہ‘‘، ’’الصلاۃ یا رسول اللہ‘‘ اور حضور اقدس ﷺ فرما رہے ہیں کہ ’’ الصلاۃ امامک‘‘ (نماز تمہارے آگے ہے) ۔ سبق یہ دیا جارہا ہے کہ یہ مت سمجھ لیناکہ اس مغرب کے وقت میں کچھ رکھا ہے ۔ ارے بھائی ! جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے ۔ جب ہم نے کہا کہ جلدی پڑھو تو جلدی پڑھنا باعث ِ ثواب ہے اور جب ہم نے کہا کہ مغرب کا یہ وقت گزار دو اور مغرب کی نماز عشاء کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھو تو اب تمہارے ذمہ وہی فرض ہے ۔ حج میں قدم قدم پر اللہ تبار ک و تعالیٰ نے قاعدوں کے بت توڑے ہیں ، عصر کی نماز میں تقدیم کرادی اور مغرب میں تاخیر کرادی۔ ہر کام الٹا کرایا جارہا ہے اور تربیت اس بات کی دی جارہی ہے کہ کسی چیز کو اپنی ذات میں مقصود نہ سمجھنا ۔ نہ نماز اپنی ذات میں مقصود ہے ،نہ روزہ اپنی ذات میں مقصود ہے ، نہ کوئی اور عبادت اپنی ذات میں مقصود ہے ۔ مقصود اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہے۔

۔(اصلاحی خطبات، جلد۱، صفحہ ۱۹۵)۔

یہ ملفوظات حضرت ڈاکٹر فیصل صاحب نے انتخاب فرمائے ہیں ۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے ملفوظات اور تعلیمات پڑھنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں:۔
https://readngrow.online/category/mufti-taqi-usmani-words/

Most Viewed Posts

Latest Posts

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی

اَسلاف میں تقلیدِ معین عام تھی چنانچہ سلف سے لے کر خلف تک اختلافی مسائل میں ایسے ہی جامع افراد کی تقلیدِ معین بطور دستور العمل کے شائع ذائع رہی ہے اور قرنِ صحابہ ہی سے اس کا وجود شروع ہوگیا تھا۔ مثلاً حدیث حذیفہ میں جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، ارشادِ نبوی ہے:انی...

read more

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد

اَسلاف بیزاری ، عدمِ تقلید یا ایک وقت ایک سے زیادہ آئمہ کی تقلید کرلینے کے چند مفاسد حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ اپنے رسالہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں:۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس پر غور کیجئے کہ اس ہرجائی پن اور نقیضین میں دائر رہنے کی عادت کا...

read more

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار

سبع سنابل سے ماخوذاربعۃ انہار غور کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں ان ساتوں سنابل کا خلاصہ چار ارکان:۔۔ 1ایمان 2اسلام 3احسان 4 اور اعلاء کلمۃ اللہ ہیںجو حقیقتاً انہارِ اربعہ ہیں۔ ’’نہران ظاہران و نہران باطنان‘‘ ایمان و احسان باطنی نہریں ہیں اور اسلام و اعلاء کلمۃ اللہ...

read more