جدال اور اِصلاح
مذہب کے نام پردوسرے اختلافات قرونِ اولیٰ کے بعد بدعت و سنت اور دوسرے عنوانات سے پیدا ہوئے۔۔۔۔ بہت سے لوگوں نے قرآن و سنت کی تعبیر میں اصولِ صحیحہ کو چھوڑ کر ذاتی آراء کو امام بنالیا اور نئے نئے مسائل پیدا کر دئیے یہ اختلافات بلاشبہ تفریق و افتراق تھے، جن سے قرآن و سنت میں مسلمانوں کو ڈرایا گیا ہے۔۔۔۔ ان کے ختم یا کم کرنے کی کوشش بلاشبہ مفید تھی۔۔۔۔ مگر قرآن حکیم نے اس کا بھی ایک خاص طریق بتا دیا ہے۔۔۔۔ جس کے ذریعے تفریق کی خلیج کم ہوتی چلی جائے بڑھنے نہ پائے۔۔۔۔ یہ وہ اصولِ دعوت الی الخیر ہیں جن میں سب سے پہلے حکمت و تدبیر سے اور پھر خیر خواہی و ہمدردی اور نرم عنوان سے لوگوں کو قرآن و سنت کے صحیح مفہوم کی طرف بلانا ہے اور آخر میں ’’مُجَادَلَۃٌ بِاللَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ‘‘ یعنی حجت و دلیل کے ساتھ افہام و تفہیم کی کوشش ہے۔۔۔۔ افسوس ہے کہ آج کل عام اہل علم اور مصلحین نے اس اصول کو نظر انداز کر دیا۔۔۔۔ صرف جدال میں اور وہ بھی غیر مشروط انداز سے مشغول ہو گئے کہ اپنے حریف کا استہزاء و تمسخر اس کو زیر کرنے کے لیے جھوٹے سچے، جائز و ناجائز ہر طرح کے حربے استعمال کرنا اختیار کر لیا۔۔۔۔ جس کا لازمی نتیجہ جنگ و جدل اورجھگڑا فساد تھا۔۔۔۔
